vosa.tv
Voice of South Asia!

بھارت کی کھیل میں سیاست ،ایشیا کپ تنازعات کا شکار

0

زین ندیم

بھارت کی کھیل میں سیاست کوئی نئی بات نہیں ۔ شاید اسی لیے آئی سی سی ایشیا کپ کے  مقام   کے معاملے  میں   انڈین کرکٹ بورڈ اپنی حکومت کی ضد اور ہٹ دھرمی کے سامنے مجبور ہوگیا  اور وہ  ضد یہ  تھی   کہ ایشیا کپ کے میچز  پاکستان  میں نہ کروائے جائیں ۔ بورڈ آف کنٹرول فار کرکٹ ان انڈیا (بی سی سی آئی ) دنیا کا سب سے امیر کرکٹ بورڈ ہے، جس کی سالانہ آمدنی $5 بلین سے زیادہ ہےیہی وجہ ہے کے   بی سی سی آئی کرکٹ میں اپنیآئی سی سی کرکٹ ورلڈا کپ کے بعد۔ ایشیا کپ دنیا کا   سب سے بڑا  کرکٹ ٹورنامنٹ مانا جاتا ہے، آئی سی سی  نے  2023 ایشیا کپ کی میزبانی پاکستانی کو سونپی تھی  اور ٹورنا منٹ اصولی طور پر پاکستان میں ہی  منعقد ہونا تھا ۔ تاہم، بورڈ آف کنٹرول فار کرکٹ ان انڈیا (بی سی سی آئی ) یعنی بی سی سی آئی  کی طرف سے اٹھائے گئے سیکورٹی خدشات کے باعث ٹورنامنٹ کے 2023 ایڈیشن کے کچھ میچز کو  ہائبرڈا ماڈل کے تحت  سری لنکا منتقل کر دیا گیا تھا۔ کیونکہ بھارت پاکستان آکر  میں آکر کھینلے کے کیے راضی نہیں تھا ۔اس فیصلے کو دنیا بھر کے کرکٹ شائقین اور ماہرین نےشدید تنقید کا  نشانہ بنایا ہے۔شائقین اور مبثرین  کا خیال ہے کہ کھیلوں کو سیاست سے الگ ہونا چاہیے، اور ایشیا کپ مکمل طور پر  پاکستان میں ہونا چاہیے تھا ،۔ دیکھا جائے تو یہ بات جائز بھی ہے کیونکہ بارش نے پورے ٹورنا منٹ کا مزہ کرکرہ کردیا ہےاور بارش کا بھی ٹورنامنٹ پر بڑا منفی  اثر پڑا ہے۔ کئی میچز خراب ہوئے ہیں اور شیڈول افراتفری کا شکار ہو گیا ہے۔ اس سے شائقین اور کھلاڑیوں کی مایوسی میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ اور  وہ خاصے ناراض نظر  آرہے ہیں ایشیا کپ کے  نصف  میچز کو  سری  لنکا منتقل کیے  جانےکے فیصلے کو شائقین ِ کرکٹ ،  تجزیہ کار وں اور مبصرین نے    کڑی  تنقید کا نشانہ بنایا۔ سوشل میڈیا کے مختلف  پلیٹ فارمز  پر  اپنی رائے کے اظہار میں بھارتی کرکٹ بورڈ  پر جم کر ُنی برہمی کا اظہار کیا ہے ۔ بہت سے صارفین نے نشاندہی کی ہے کہ پاکستان نے حالیہ برسوں میں بغیر کسی سیکیورٹی کے بڑے بڑے ٹورنامنٹس کی میزبانی کی ہے۔ ان کا موقف ہے کہ بی سی سی آئی کا فیصلہ فرسودہ دقیانوسی تصورات اور تعصبات پر مبنی ہے۔ سینئر بھارتی صحافی راج دیپ سردیسائی نے بھی  میچز   بارش  سے متاثر ہونے پر پاکستان میں کرکٹ کھیلنے کی حمایت کی ۔بھرتی بورڈ کے فیصلوں کے خلاف بھارت کے اندر سے بھی اب  آوازیں اٹھ رہی ہیں اور یہ بات بھارتی بورڈ کے لیے لمحہ فکریہ ہے  راج دیپ سردیسائی نے یہ بھی کہا کہ 15 برس میں بھارت نے پاکستان کے ساتھ کرکٹ نہیں کھیلی، کھیل کی سطح پر دونوں میں تعلقات کی  بحالی کا یہی بہترین موقع تھا۔ جسے بھارت نے ضائع کردیا اُن کا کہنا تھا کہ ہم پاکستان میں کرکٹ نہیں کھیلتے مگر ہر آئی سی سی اوینٹ میں  پاکستان سے کھیلتے ہیں، یہ عجیب ہائبرڈ ماڈل ہے۔یہاں  سوال  یہ پیدا ہوتا ہےکہ کیا کھیلوں کو سیاست سے الگ ہونا چاہیے؟ مگر یہ  ایک پیچیدہ مسئلہ ہے۔ کیونکہ ایک طرف تو بھارت کہتا ہے  کہ کھیل  کو سیاست سے الگ رکھنا چاہیے مگر بھارتی بورڈ ہر بار حکومت سے اجازت نا ملنے کا بہا نہ بنا کر سارا ملبہ اپنی ہی حکومت پر ڈال دیتا ہے ۔ اور ہر بار پاکستان  سے نا  کھیلنے کے حیلے بہانے بناتا ہے ۔ حالانکہ پاکستان اور  بھارت کی تاریخ رہی ہے کہ  کرکٹ کے کھیل نے دونو ں ملکوں کی کشیدگی  کو کم کرنے  میں موئثر کردار ادا کیا ہے ۔ماضی میں جب  صدر مشرف نے ہندوستان کا دورہ شروع کرنے  کا ارادہ کیا تو  اسے قبل کشمیر میں ’سافٹ‘ بارڈر کی بات کی۔ صدر مشرف نے اجمیر شریف کا  بھی دورہ کیا  تھا اور ہندوستان پاکستان کے درمیان ماحول کو سازگار  بتایا تھا۔ صدر مشرف سے قبل جنرل ضیاء الحق نے بھی ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں کشیدگی کم کرنے کے لئے کرکٹ ڈِپلومیسی کا سہارا لیا تھا۔کھیل کے زریے آپ  مختلف ثقافتوں اور پس منظر کے لوگوں کو اکٹھا کر سکتے ہیں، اور وہ امن اور  افہام و تفہیم کو فروغ دے سکتے ہیں۔  اور اگر  دانشمندی سے کام لیا جائے  تو کھیل سفارت کاری اور تنازعات کے حل کے لیے ایک طاقتور ہتھیار ثابت ہو سکتے ہیں۔دوسری طرف کھیلوں کو سیاسی مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ حکومتیں اور تنظیمیں کھیلوں کو اپنے ایجنڈوں کو فروغ دینے کے لیے استعمال کر سکتی ہیں، اور وہ کھیلوں کے مقابلوں کو دوسرے ممالک پر اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے استعمال کر سکتی ہیں۔ایشیا کپ کے معاملے میں یہ واضح ہے کہ ٹورنامنٹ کو منتقل کرنے کے فیصلے میں سیاست کا کردار رہا ہے۔ بی سی سی آئی کے سیکورٹی خدشات جائز ہیں، لیکن وہ بھی فرسودہ دقیانوسی تصورات پر مبنی ہیں۔ ٹورنامنٹ منتقل کرنے کے فیصلے سے پاکستان کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے، اور اس نے ایک خطرناک نظیر بھی قائم کر دی ہے۔دنیا بھر کے مبصرین کیا کہہ رہے ہیں۔دنیا بھر کے مبصرین ایشیا کپ کو منتقل کرنے کے فیصلے پر تنقید کر رہے ہیں۔ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) نے کہا تھا  کہ وہ اس فیصلے سے "مایوس” ہیں، اور بی سی سی آئی سے دوبارہ غور کرنے کا مطالبہ کیا  تھا۔پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے بھی مایوسی کا اظہار کیا ۔ پی سی بی نے کہا تھا کہ وہ "پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کی میزبانی کے لیے پرعزم ہے،” اور  بی سی سی آئی سے "اپنے فیصلے کا از سر نو جائزہ لینے” کا مطالبہ کیا تھا۔بی سی سی آئی تنقید کی زد میں بی سی سی آئی دنیا بھر کے شائقین اور ماہرین کی تنقید کی زد میں ہے۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ بی سی سی آئی پاکستان کو دھونس دینے کے لیے اپنا سیاسی اثر و رسوخ استعمال کر رہا ہے۔ ان کا موقف ہے کہ بی سی سی آئی پاکستان کو اس کے بھارت مخالف موقف کی سزا دینے کی کوشش کر رہا ہے۔بی سی سی آئی نے اپنے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ یہ سیکیورٹی خدشات پر مبنی ہے۔ تاہم، بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ بی سی سی آئی محض اپنے تجارتی مفادات کے تحفظ کی کوشش کر رہا ہے۔بہرحال ایشیا کپ منتقل کرنے کا فیصلہ پاکستان کرکٹ کے لیے بڑا دھچکا ہے۔ یہ ان چیلنجوں کی یاد دہانی ہے جن کا پاکستان کو بین الاقوامی کرکٹ کی میزبانی میں سامنا ہے۔ تاہم، یہ پاکستانی عوام کی لچک کی یاد دہانی بھی ہے۔ پی سی بی نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کی مکمل طور پر  واپسی کے لیے سخت محنت جاری رکھے گا۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.