پیغام رساں کبوتر:عہدِ قدیم سے عصرِ حاضر تک
تحریر:زین ندیم
کبوتروں کا پیغام رسانی کا کام عہد قدیم کی مشہور اور دلچسپ کہانی ہے۔ان کا پیغام رسانی کا یہ سلسلہ نصف صدی پہلے تک جاری رہا اور اب بھی مکمل طور پر ختم نہیں ہوا ہے۔ جنگوں اور محاصروں کے دوران، جب جدید ٹیکنالوجی ناکام ہو جاتی ہے، تو پیغام رسانی کے لیے کبوتروں کا استعمال ضروری ہو جاتا ہے۔ فرانس کی حکومت نے آج تک ان کی باقاعدہ پرورش اور تربیت جاری رکھی ہوئی ہے۔ ان وفادار پیغامبروں نے دنیا میں خبر رسانی کی عجیب و غریب خدمات انجام دی ہیں اور انسان کو بڑی بڑی مشکلات سے بچایا ہے۔محبت کی دنیا میں بھی کبوتروں کو پیغام رسانی کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ عشاق بے صبر ان کبوتروں کے انتظار کو بے چینی سے برداشت کرتے تھے۔ شاعری میں بھی کبوتروں کو پیغام رسانی کی ذمہ داری سونپی گئی ہے، اور فارسی شاعری میں بلبل کے بعد سب سے زیادہ کبوتروں کو مقام ملا ہے۔مسلمانوں نے بھی اپنے عہدِ تمدن میں کبوتروں کا استعمال بڑے بڑے کاموں کے لیے کیا تھا۔نامہ بر کبوتروں کی تربیت ایک مستقل فن بن گئی تھی، جس پر کئی کتابیں لکھی گئیں۔مسلمانوں کی تاریخ میں ان کا ذکر موجود ہے۔حال ہی میں رسالہ "سائنٹفک امریکن” کے ایک مضمون نگار نے کبوتروں کے متعلق ایک دلچسپ مضمون لکھا ہے جس میں بہت سی تصویریں بھی شامل ہیں۔ اسے پڑھ کر مسلمانوں کی گزشتہ ترقیات یاد آ جاتی ہیں جن کا ذکر سیرطی اور مقریزی وغیرہ نے مصر کی تاریخوں میں کیا ہے۔فرانس میں نامہ بر کبوتروں کی تربیت کا نظام آج بھی جاری ہے۔ وہاں ۸۲ فوجی کبوتر خانے موجود ہیں جو افزائش اور تربیت کے لیے وقف ہیں۔ پیرس کے قلعوں کے قریب مقام Vagirard میں واقع فوجی کبوتر خانے میں کبوتروں کی افزائش اور تربیت کا نظام دیکھنے کا موقع ملا۔ یہ تربیت اتنی اہم ہے کہ اس پر کافی روپیہ خرچ کیا جاتا ہے اور سپاہی ان ننھے جانوروں کی تعلیمی ترقی کو بڑی دلچسپی سے دیکھتے ہیں۔کبوتروں کی پرورش اور تربیت کے لیے خصوصی انتظامات کیے جاتے ہیں۔ ہر کبوتر خانے میں ۱۰۰ کبوتر ہوتے ہیں جو فوجی خدمات کے لیے تیار کیے جاتے ہیں۔ ان کی خوراک اور صحت کا خیال رکھا جاتا ہے اور انہیں خاص تربیت دی جاتی ہے تاکہ وہ پیغام رسانی کے قابل ہو سکیں۔ان کبوتروں کی تربیت اور پرورش کا نظام آج بھی جاری ہے اور یہ مسکین پرندے اپنی وفاداری اور خدمات سے انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں۔
) یہ تحریر مشہور انشاء پرداز اور صاحبِ طرز ادیب ابوالکلام آزاد کے ایک مضمون سے اقتباس ہے، جو لگ بھگ سات، آٹھ دہائیاں پرانا ہے۔(