ورلڈ کپ دو ہزار تئیس کا آغاز ہوچکا ۔ پاکستا ن ٹیم چھ تاریخ کو اپنی ورلڈ کپ کیمپین کا آغاز کریگی ۔آئی سی سی کرکٹ ورلڈ کپ 2023 میں حصہ لینے والی پاکستانی ٹیم کی خامیوں اور خوبیوں کا جائزہ لیں تو ہمیں ٹیم کی پہلی کمزوری اوپننگ میں نظر آتی ہے۔مسلسل ناکامیوں کے بعد ٹیم کےاوپنینگ بلے باز فخر زمان کی فارم پر سوالیہ نشان ہے۔ فخر پچھلی 10 اننگز میں ایک بھی نصف سنچری نہیں بنا سکے ہیں، جس کی وجہ سے ٹیم اچھا سٹارٹ دینے میں کامیاب نہیں ہو پائی ہے جبکہ انکے ساتھی اوپنر امام الحق قدرے بہتر پر فارم کررہے ہیں ۔وہ مستقل مزاجی سے اپنی ذمہ داری بخوبی نبھا رہے ہیں۔ ایشیا کپ دوران بھی انہوں نے بنگلہ دیش کے خلاف 78 رنز کی شاندار اننگز کھیلی تھی۔یہاں فخر زمان کا فارم میں آنا پاکستان ٹیم کے لیے بہت اہم ہے ۔ اگر وہ بھی اپنی کھوئی ہوئی فارم حاصل کرلیتے ہیں تو پاکستان کے لئے کسی بھی میچ پر اپنی گرفت بنانا آسان ہو جائے گا۔ پاکستان کی دوسری اور سب سے بڑی کمزوری اسپین بالنگ میں نظر آرہی ہے اگر ہم گزشتہ دو مہینوں کی بات کریں تو ون ڈے انٹر نیشنل کے اعداد شمار کے مطابق مڈل اوورز میں پاکستانی اسپنرز اتنے اچھے ثابت نہیں ہوئے جتنی توقع تھی۔ میگا ٹورنامنٹ ہندوستان میں کھیلا جارہا ہےاور ہندوستانے سر زمیں پر اسپنرز کا ہمیشہ اہم کردار ہوتا ہے۔ شاداب خان اور محمد نواز ورلڈ کپ اسکواڈ میں پاکستان کے اہم اسپنرز ہیں۔ ٹیم میں انکا کردار انتہائی اہم ہے مگر دونوں ہی سپنرز درمیانی آورز میں وکٹیں لینے میں کامیاب نہیں ہوپارہے جیسی کے ان سے توقع رہتے ہے ۔ جبکہ انکے ساتھ ریزروز میں اسامہ میر کو بھی 15 کے سکواڈ میں شامل کیا گیا ہے ۔ اور وہ واحد وکٹ ٹیکنگ آپشن کے طور پر دکھ رہے ہیں مگر مسئلہ یہاں یہ ہے کے انکی پلئینگ الیون میں جگہ بنانا مشکل نظر آرہا ہے کیونکہ شاداب خان پاکستان ٹیم کے نائب کپتان ہیں انہیں ڈراپ کرنا مشکل لگ رہا ہے جبکہ محمد نواز پر بھی بابر عظم بہت اعتماد کرتے ہیں اور انہیں میچ ونر کے طور پر گردانتے ہیں ۔شاداب خان کی بات جائے تو اس سال اب تک مجموعی طور پر 11 ون ڈے کھیل چکے ہیں جس میں انہوں نے صرف 13 وکٹیں لی ہیں ۔ وہیں اگر نواز کی بات کی جائے تو انہوں نے اس سال 10 میچوں میں صرف 9 وکٹیں حاصل کی ہیں۔اور پٌاکستان کے تیسرے سپنر اسامہ میر نے اسی سال ون ڈے کرکٹ میں ڈیبیو کیا ہے اور اسامہ اب تک 8 میچز میں 11 وکٹیں حاصل کر چکے ہیں پاکستان کی تیسری کمزوری مڈل آرڈر بلے بازی ہے جہاں پوری ذمہ داری اسٹار بلے باز محمد رضوان پر عائد ہوجاتی ہے۔ افتخار احمد کئی مواقعوں پر اپنا جارحانہ انداز پیش کرکے ٹیم کی جیت میں اہم کردار ادا کرچکے ہیں لیکن ان دونوں کے علاوہ پاکستان کا مڈل آرڈر کمزور دکھائی دے رہا ہے تاہم پاکستان کی ٹیم میں سعود شکیل کی شمولیت کے بعد پاکستانی مڈل آرڈر قدرے مستحکم نظر آرہا ہے اور توقع کی جارہی ہے کہ سعود شکیل پاکستان کے کمزور مڈل آرڈر کو تقویت فراہم کرنے کا باعث بنیں گے۔ پر اب دیکھنا یہ ہے کہ بابر اعظم مضبوط تکنیک کے مالک سعود شکیل کو ٹیم میں شامل کرتے ہیں یا وہ سلمان آغا پر ہی اعتماد کریں گے جو کے پچھلے کئی میچز میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھانے میں ناکام رہے ہیں ۔ بابر اعظم کی ٹیم کی سب سے بڑی طاقت ہی اس مرتبہ کمزور دکھائی دے رہی ہے۔ اگر مہینہ پہلے پاکستان کی باؤلنگ کا موازنہ دنیا کے کسی بھی اٹیک سے کیا جاتا تو بلہ شبہ پاکستان کے بالنگ اٹیک کو برتری حاصل تھی اور ایشیا کپ کے دوران پاکستان کے تیز رفتار تینوں گیند باز یعنی شاہین آفریدی، حارث رؤف اور نسیم شاہ نے مل کر مخالف ٹیموں کو ٹف ٹائم دیا اور اگر بیٹسمین کہیں ناکام ہو بھی گئے تو ان تینوں کے ٹرائیکا نے مخالف ٹیم کی بیٹنگ لائن کے پرخچے اڑاکر رکھ دیئے تاہم نسیم شاہ کے انجری کے بعد ٹیم کا فاسٹ باؤلنگ یونٹ قدرے کمزور دکھائی دے رہا ہے۔ پاکستان کو اس کا خمیازہ ٹرافی سے دور رہ کر بھگتنا پڑا۔ اب نسیم شاہ انجری کے باعث ورلڈ کپ سے بھی باہر ہیں۔ ایسی صورتحال میں بابر اعظم کو ایسے گیند باز کی تلاش تھی جو نئی گیند سے جلد وکٹیں لے سکے۔پاکستان کے چیف سلیکٹر انضمام الحق نے تجربہ کار حسن علی کو نسیم شاہ کی جگہ ٹیم میں شامل کیا ہےا ور امید کی جارہی ہے کہ حسن علی چیمپئنز ٹرافی والی پرفارمنس پھر سے دہرائیں گے۔ اس کے علاوہ پاکستان کو ورلڈ کپ کے لئے اپنی فیلڈنگ پر بھی توجہ دینی ہوگی۔ پاکستان کی جانب سے کئی بڑے مواقع پر انتہائی ناقص فیلڈنگ دیکھنے میں آئی ہے، جس کی وجہ سے ٹیم کو اہم مواقعوں پر شکست کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے ۔ ایسے میں رنز بچانے کے لئے پاکستان کو ورلڈ کپ کے لئے فیلڈنگ پر توجہ دینی ہوگی۔ پاکستان کی ان خامیوں کے بعد اب سب کی نظریں کپتان بابر اعظم، شاہین آفریدی، محمد رضوان اور حارث رؤف پر مرکوز ہوں گی۔