vosa.tv
Voice of South Asia!

تارکین وطن کی آمد اورنفرت انگیز جرائم سے نیویارک کیسے نمٹے گا۔؟

0

ووسا رپورٹ :  نیویارک سٹی کے  میئر ایرک ایڈمز نے کہا ہے کہ شہر کو تارکینِ وطن کی بے ہنگم آمد کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل سے نمٹنے  کے لیے آئندہ  تین سالوں میں 12 ارب ڈالر کی رقم درکار ہوگی، وفاقی حکومت  ایسی  حکمتِ عملی اختیار کرے جس سے  پنا گزینوں  کے بوجھ کو ملک بھر میں تقسیم کیا جاسکے،سیاست اور کسی بڑے عہدے پر ہوں تو الزامات لگتے ہیں اورانکوائری بھی ہوتی ہیں، لیکن میں نے ہمیشہ  قانون پر عمل کیا ہے اور آئندہ بھی پاسداری کرتا رہوں گا،شہر میں نفرت کے  لیے کوئی جگہ نہیں ،احتجاج سب کا حق ہے لیکن تشددکی اجازت کسی کو نہیں دی  جاسکتی۔یہ باتیں انھوں نے گزشتہ دنوں وائس آف ساوتھ ایشیا کے  نمائندہ خصوصی فہیم میاں کو ویڈیو لنک پر دیے گئے :خصوصی انٹر ویو میں کہیں۔یہ انٹرویو تفصیلی طور پر قارئین  کے لیے  پیش ہےاور اسے یوٹیوب پر بھی سنا جاسکتا ہے
https://youtu.be/4bmGqP04gUQ

نیویارک میں تقریباًڈیڑھ لاکھ تارکینِ وطن کا اضافہ

وائس آف ساوتھ ایشیا:

اس وقت نیویارک شہر کو تارکین وطن کی آمد کا سامنا ہے۔ آپ نے پچھلی کانفرنس میں بھی  بتایا تھا کہ نیویارک میں ہر ہفتے 2ہزار سے زیادہ تارکین وطن آ رہے ہیں اور شہر کوآئندہ دو سال کے دوران 12 بلین ڈالر کے مالی خسارے کا سامنا ہو سکتا ہے۔ اس اہم مسئلے پر قابو پانے کے لیے آپ کی انتظامیہ کیا منصوبہ بندی کر رہی ہے۔

میئر ایرک ایڈمز:

یہ ایک قومی بحران  کی شکل اختیار کر رہا ہے اوراس کا  بوجھ نیویارک شہر کے ٹیکس دہندگان کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے ۔یہ ٹیکس دہندگان کے ساتھ ناانصافی ہے اور یہ تارکین وطن اور پناہ کے متلاشیوں کے ساتھ بھی ناانصافی ہے۔جب آپ اعدادو شمار کو دیکھتے ہیں اورجیسا کہ  آپ نے ابھی ذکر کیا ہے، تو ہم نے ایک ہفتے میں 2ہزار سے لے کر 4ہزار  تک کی  بھی  تارکین وطن  کی آمد دیکھی ہے۔ ہمارے شہر میں 1 لکھ  45 ہزار  سے زیادہ پناہ کے متلاشی آچکے ہیں ۔ ہم نے اس بحران پر قابو پانے کے لیے 210 سے زیادہ ہنگامی پناہ گاہیں کھولی ہیں۔جن میں 18 بڑے مراکز شامل ہیں  جنھیں ہم انسانی پناہ گاہیں کہتے ہیں۔یہ ہمارے شہر پر ایک سنگین مالی دباؤ رہا ہے۔ اس مالی سال میں اب تک ہم اس بحران پر 2 بلین ڈالر خرچ کر رہے ہیں۔ مجموعی طور سال بھر  کے  لیے  5 بلین ڈالر اورآئندہ تین سالوں کے لیے 12 ارب ڈالر  کی خطیر رقم درکار ہوگی۔اس معاملے میں وفاقی حکومت کو قدم اٹھانا چاہیے اور اُن کے پاس ڈیکمپریشن کی حکمت عملی ہونی چاہیے جو اس بحران کے حل  کے لیے  اس کا بوجھ پورے ملک میں تقسیم کرنے کی اجازت دے گی ۔ صرف  نیویارک ہی نہیں بلکہ دوسرے چھوٹے شہروں  پر  بھی  توجہ دینا ہوگی ۔ہمیں اعدادو شمار کو دیکھ کر فیصلہ کرنا ہوگا۔ہم نے محسوس کیا ہے کہ  لوگوں  کو  اس  معاملے کی سنگینی  کا احساس نہیں ہے ۔50فیصد سے زیادہ لوگ جو ہمارے شہر میں آئے ہیں ہم انھیں خود مختار بنانے   کے لیے مختلف مطلوبہ خدمات اور  اس کے استعما ل کی  اجازت دینے میں کامیاب رہے ہیں ۔ابھی  50 فیصد تارکین وطن ایسے ہیں جو ہماری دیکھ بھال  سے باہر ہیں ۔ہمیں  لوگوں کو  کام کی اجازت دینے اور انھیں خود کفیل بنانے میں  مدد کی ضرورت  ہے۔

الزامات کی تہہ تک پہنچنا چاہتے ہیں

وائس آف ساوتھ ایشیا:

آپ کو ترکی سے فنڈ لینے  کے معاملے پر  پہلے ہی ایف بی آئی کی طرف سے ایک انکوائری کا سامنا ہےاور حال ہی میں آپ کو ایک جنسی زیادتی  کے الزام کا بھی سامنا کرنا پڑا جسے آپ کے ترجمان نے یکسر مسترد کیا تھا، آخر آپ کو اتنی مشکلات کا سامنا کیوں ہے۔؟

میئر ایرک ایڈمز:

میں سمجھتا ہوں کہ جب بھی آپ میئر کے  عہد ے پر ہوں  ۔جیسا  مجھے ابھی انکوائری کا سامنا    ہے ، پچھلے  میئرز کو بھی رہا ہوگا۔اتنے  بڑے شہر کے میئر ہوں تو وقتاً فوقتاً انکوائری  ہوتی رہیں گی ،بس آپ کو شفافیت سے کام کرنا ہے  اورمیں نے ہمیشہ  یہی کوشش کی ہے ۔جو الزامات عائد کیے گئے ہیں ہم ان کی تہہ تک جانا چاہتے ہیں ۔میں نے واضح کیا  ہے کہ  میں  قوانین کی پاسداری  کرتا ہوں ۔ یہ میرا  اولین اُصول ہے اور   میں یہ ہمیشہ کہتا  رہوں گا کہ   ہم نے قوانین پر عمل کرنا ہے۔ہماری طرح  سدرن  ڈسٹرکٹ اور ایف بی آئی بھی یہی چاہتی ہے۔ہم چاہتے ہیں مکمل  شفافیت کے ساتھ  نتائج  تک  پہنچے   تاکہ الزامات کی حقیقیت  معلوم ہوسکے۔آپ دیکھیں گے میں بطور  میئر اور عوا می خدمتگار  قوانین  پر عمل پیرا رہوں گا۔میں یہی کرتا ہوں اور ہم  اس معاملے میں  جس حد تک بھی ممکن ہوگا تعاون  کریں گے۔

احتجاج سب کا حق ہے لیکن تشدد کی اجازت کسی کو نہیں

وائس آف ساوتھ ایشیا:

حماس اور اسرائیل کے تنازع کے بعد سے ہم نے نیویارک شہر میں ہزاروں احتجاج  دیکھے ہیں۔یہ مظاہرےمسلمان کر رہے ہوں یا یہودی،دونوں  ہی آپ کے ووٹر زہیں۔ کتنا مشکل ہوتا ہے آپ کے لیے  ایسی  صورتحال میں شہر کے حالات کنٹرول کرنا اور امن و امان کو برقرار رکھنا ۔؟

میئر ایرک ایڈمز:

ہم ایک ایسا ماحول بنانا چاہتے ہیں  جہاں ہر کسی  کو  پر امن طریقے سے بغیر کسی  تشدد اورکسی کو بے عزت کیے بغیر  اپنے حقوق  کے لیے آواز اٹھانے کا حق  حاصل ہو۔ہم نے ایک واقعہ دیکھا جہاں خواتین نے فلسطینی مظاہرین پر کافی پھینکی، یہ ناقابل قبول ہے۔ہم نے دیکھا کہ ورمونٹ میں کیا ہوا جب تین نوجوانوں کو گولی مار دی گئی۔یہ کسی بھی مسئلے کے خلاف  یا اس کی حمایت کا  درست  طریقہ نہیں ہے۔اس ملک یا اس شہر میں نفرت کی کوئی گنجائش نہیں اور میں آگے  بڑھ کر امن کے لیے کردار اد ا کرتا  رہوں گا۔جب میں مسلم لیڈروں سے بات کرتا ہوں تو وہ بتاتے ہیں کہ ان کے خاندان کے کتنے لوگ، خاص طور پر خواتین حجاب پہننے سے خوفزدہ ہیں کہ ان  کے ساتھ کہیں کوئی  غیر مہذب رویہ نہ اختیار کرلے۔یہی  باتیں  اپنے یہودی حلقوں کے لیے بھی  سنتا ہوں۔ ان میں سے بہت سے لوگ سب وے سسٹم میں یاماکو پہننے سے ڈرتے ہیں کیونکہ انھیں خود پر حملہ ہونا کا خوف ہوتا ہے۔اس  وقت   ہمیں دونوں  طرف سے   انتہا  پسندی اور شدت پسندی کا سامنا ہے۔ میرا ماننا ہے کہ ہمیں تین  طرح کے اقدامات  کرنے کی ضرورت ہے۔نمبر ایک، ہمیں اپنے نوجوانوں  کو مثبت سرگرمیوں  میں مشغول کرنے کی ضرورت ہےتاکہ وہ ہمیں درپیش  مسائل کو حل  تلاش کرسکیں ۔نمبر دو، ہمیں سوشل میڈیا پر حقیقی پش بیک کی ضرورت ہے۔سوشل میڈیا الگورتھم اور دیگر طریقوں کا استعمال کرتے ہوئے بہت زیادہ غصہ پھیلا رہا ہے سوشل میڈیا  پر جو کچھ  لوگ دیکھ رہے ہیں اس سے  ان میں غلط فہمیاں پید ا ہورہی ہیں ۔ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ ہم پرامن احتجاج کریں۔ہم نے اس مسئلے دونوں  فریقین  کی طرف سے  اس شہر میں 400 سے زیادہ احتجاجی مظاہرے دیکھے ہیں ۔ہم لوگوں کو املاک کو نقصان پہنچائے بغیر اور پرامن طریقے سے احتجاج کرنے کی اجازت دینے میں کامیاب رہے۔

میں کوئی نیا نہیں بلکہ بہت پرانا دوست ہوں

وائس آف ساوتھ ایشیا:

نیویارک شہر کی تاریخ میں آپ وہ واحد  میئر ہیں جنہوں نے مسلم کمیونٹی کو اذان کے لیے لاؤڈ اسپیکر استعمال کرنے کی اجازت دی۔ پوری کمیونٹی اس شاندار فیصلے کی تعریف کر رہی ہے۔ کیا آپ کے پاس مسلم کمیونٹی کو مزید سہولت فراہم کرنے کے لیے کوئی اور منصوبہ ہے؟

میئر ایرک ایڈمز:

جب آپ مسلم کمیونٹی کے ساتھ بھرپور  تعلقات کی  میری تاریخ دیکھتے ہیں۔تو میں بار بار کہتا رہتا ہوں، میں کوئی نیا دوست نہیں ہوں۔ میں ایک پرانا دوست ہوں۔

میں 2001 میں وہاں تھا جب  کچھ نوجوان مسلمان مردوں کو کونی آئی لینڈ ایونیو پر گھیرے میں لے رہے تھے۔میں نے 30 اسٹریٹ  پر وفاقی قید خانے میں کھڑا ہو کر ان کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔میں نے ان خوفناک دنوں میں اپنی تمام مساجد کا ساتھ دیا۔ میں سینیٹ کے فلور پر اس وقت موجود تھا اورسینیٹر گریگ بال کے خلاف لڑ رہا تھا، جو اسلامک فوبک تھا۔میں اس وقت بھی وہاں موجود تھا جب اسٹیٹن آئی لینڈ میں بس میں سوار حجاب پہنے ایک خاتون پر حملہ کیا گیا۔میں مسلم کمیونٹی کے لیے اپنی یکجہتی کا اظہار کرنے کے لیے حامیوں اور دوسروں کے ساتھ سوار ہوا۔ اور وہ بھی جب "کِل آ مسلم ڈے ”  کے ایک فلائر کو باہر رکھا گیا تھا۔میں  مسلمان بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ سڑکوں پر نکلا۔میں یمنی کمیونٹی میں اس وقت شامل ہوا جب ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے مسلمانوں پر پابندی عائد تھی۔میں نے سٹی ہال کھولا اور ہم نے یکجہتی کے لیے اپنی حمایت ظاہر کرنے کے لیے ایک ساتھ مظاہرہ کیا۔جب آپ اذان  کی آواز سنتے ہیں  تو یہ میرے بہت سے  اچھے کاموں میں سے ایک ہے۔ ہم نے اسکولوں میں حلال کھانے کا انتظام کیا۔ سرکاری عمارتوں میں کھلی  جگہیں  چھوڑیں تاکہ نمازیں ادا کی جاسکیں۔میں سمجھتا ہوں کہ نیویارک جیسے کثیر الثقافتی ماحول میں رہنا اور تمام مذاہب کو اپنے عقیدے کے  اظہار کی اجازت   ہونی چاہیے۔یہ شہر سب کے عقائد ک احترام کرتا ہے۔میں ایمان پر پختہ یقین رکھنے والا ہوں۔ میں خدا کا ماننے والا ہوں۔میرا ماننا ہے کہ ہر گروہ کو پرامن طریقے سے اپنے عقیدے کی حمایت اور اس کو تسلیم کرنے کا حق ہونا چاہیے۔

ہمارے بچے ایک دوسرے کو پہچانیں

وائس آف ساوتھ ایشیا:

اس انٹرویو کے آخر میں آپ ہمارے ناظرین کو کوئی پیغام دینا چاہیں گے۔؟

میئر ایرک ایڈمز:

جی ہاں، میں اپنی گفتگو سمیٹنا چاہوں گا اور جیسا کہ میں نے اپنے تبصروں میں بھی ذکر کیا۔میں اس کمیونٹی کا پرانا دوست ہوں۔ تمام عقیدے کی برادریوں کا پرانا دوست ہوں۔ سکھ برادری کے مرد اور خواتین آپ کو بتائیں گے کہ میں ان کے ارد گرد کتنے عرصے سے رہا ہوں۔عیسائی برادری ،بدھ برادری کے مرد اور عورتیں  گواہ ہیں کہ  میں ان  کے ساتھ ملک کے  حصوں  میں کی گئیں عبادات  میں  شریک  رہا ہوں ۔عبادت گاہوں گاہوں میں کھڑا ہوا ہوں۔ میں آپ کی مسجد سے گزرتا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ رمضان منانا کیا ہے۔ گریسی مینشن میں جشن منانا کیا ہے۔ اور اس لیے ہمیں اسے مل کرآگے بڑھانا چاہیے۔میرے خیال میں یہ ضروری ہے کہ ہمارے بچوں کو ایک دوسرے کو جاننا چاہیے۔ہم ایک ساتھ کھانا کھاتے ہیں ۔ہمیں اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ ہم اپنے شہر کو بلند کرتے رہیں اور صحیح پیغام بھیجیں۔جس حیرت انگیز شہر میں ہم سب رہتے ہیں اس میں  نفرت کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔آپ کے توسط سے مجھے اپنی بات  کہنے کا موقع  ملا ، اس پر میں شکر گزار ہوں۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.