جسٹس اطہر من اللہ کا رات میں عدالت لگنے کا دفاع،ن لیگ کا احتجاج
ملک میں مارشل لاء کا خطرہ ہو تو عدالتیں کھلی ہونی چاہیے، جسٹس اطہر من اللہ کا نیویارک بار ایسوسی ایشن سے خطاب
نیویارک(ویب ڈیسک)سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج جسٹس اطہر من اللہ کہتے ہیں کہ جب میں ملک مارشل لاء کے سائے منڈلانے لگیں تو عدالتیں کھلی ہونی چاہیے۔ وہ نیویارک بار ایسوسی ایشن کے ارکان سے خطاب کررہے تھے۔نیویارک بار سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ میں ٹی وی چینل کا نام لینا نہیں چاہ رہا،جس نے عدم اعتماد کے وقت ایسا ماحول بنایا جیسے مارشل لاء لگنے والا ہے، میں چاہتا ہوں جب بھی مارشل لاء کا خطرہ ہو عدالتیں کھلی ہوئی ہوں۔نیویارک بار میں منعقدہ تقریب میں وکلاء کے علاوہ پاکستانی قونصل خانے کا عملہ اور کمیونٹی کی نمایاں شخصیات بھی شریک تھیں۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کاش عدالتیں 5 جولائی کو بھی کھلی ہوتیں جب جنرل ضیاء نے منتخب وزیراعظم کوہٹایا تھا،کاش عدالتیں 12 اکتوبر1999 کوکھلی ہوتیں جب مشرف نے منتخب وزیراعظم کوباہرپھینکا،کسی نے اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کو ہٹانےکی کوشش کی ہوتی تویہ امتحان اسلام آباد ہائیکورٹ کا ہوتا کہ وہ آئین کی بالادستی کےلیےکھڑی ہوتی ہے یا نہیں۔قبل ازیں نیویارک بار ایسوسی ایشن کے صدر محمد عثمان فریدی نے جسٹس اطہر من اللہ کی آمد پر ان کا خیر مقدم کیا۔ان کا کہنا تھا کہ نیویارک بار ایسوسی ایشن کا قیام 1874 میں عمل میں آیا،یہ امریکا میں ججز و وکلاء کی سب سے بڑی بار ہے جس کے 23 ہزار ممبران ہیں۔چاہتے ہیں کہ دنیا کے ہر ملک میں قانون کی بالادستی ہو۔جسٹس اطہرمن اللہ کا مزید کہنا تھا کہ جب میں نے ایک نوٹ لکھا تو میرے دو بیٹوں کا پرسنل ڈیٹا سوشل میڈیا پر ڈال دیا گیا، وہ ڈیٹا ایک سرکاری ادارے سے حاصل کیا گیا تھا، میری بیوی جس کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں اس پر ایک ڈاکیومینٹری بنا کر حملہ کیا گیا،یہ ایک جج کی آزمائش ہوتی ہے، یہ ججوں کی آزادی کا ٹیسٹ ہوتا ہے، جج کو تنقید سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے۔
علاوہ ازیں سپریم کورٹ آف پاکستان کے جسٹس اظہر من اللہ کی دورہ امریکا پر مسلم لیگ ن کے کارکنان سراپا احتجاج بن گئے۔ جسٹس اطہر من اللہ کے نیویارک بار سے خطاب کے موقع پر لیگی کارکنان نے میاں فیاض کی قیادت میں احتجاجی مظاہرہ کیا۔احتجاجی مظاہرے میں لیگی رہنما دانش ملک،راجہ رزاق ودیگر شامل تھے۔مظاہرین نے ہاتھوں میں پلے کارڈ اور بینرز اٹھا رکھے تھے۔جن پر مختلف مطالبات درج تھے۔مظاہرین کا کہنا تھا کہ پاکستان میں جوڈیشل ایکٹوازم بند ہونا چائیے،عدل وانصاف کا تقاضا ہے کہ مقدمات کے فیصلے اپنے جذبات کی بجائے آئین وقانون کے مطابق کیے جائیں۔مظاہرین کا یہ بھی کہنا تھا کہ عدلیہ میں کسی بھی جج کی تقرری سیاسی بنیاد پر نہیں کی جانی چائیے،اس اقدام سے نظام عدل وانصاف متاثر ہوتا ہے۔