فوج میں خدمات سے انکاری الٹرا آرتھوڈوکس یہودی یشیوا طلباء کی فنڈنگ پر پابندی
تل ابیب:اسرائیل کی سپریم کورٹ نے جمعرات کو الٹرا آرتھوڈوکس یشیوا طلباء کے لیے ریاستی فنڈنگ ختم کرنے کا حکم دیا جو فوج میں خدمات انجام سے انکاری ہیں ۔ماہرین نے اسرائیلی عدالت کے فیصلے کو اہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس فیصلے سے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کی قیادت کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے کیونکہ وہ غزہ میں حماس کے ساتھ جنگ کرررہے ہیں۔ حکومت کو فوجی بھرتی کے نئے منصوبے پر پیر کی ایک علیحدہ ڈیڈ لائن کا سامنا ہےکیونکہ الٹرا آرتھوڈوکس کے لوگوں کو جنگ سے چھوٹ حاصل ہے اور فوجی خدمات سے بھی چھوٹ حاصل ہے انہیں قومی دھارے میں لانا عوامی غصے کو جنم دیتا ہے اور یہ کشیدگی کا ایک دیرینہ نقطہ ہے جو اب سیاسی ہلچل کا باعث بن سکتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو پردباؤ بڑھ گیا ہے کیونکہ ان کی حکومت کا اتحاد جزوی طور پر دو انتہائی آرتھوڈوکس جماعتوں پر انحصار کرتا ہے جنہوں نے استثنیٰ برقرار رکھنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو کی حکومت کا خاتمہ اسرائیل کو نئے انتخابات میں لے جائے گا اور پولز بتاتے ہیں کہ نتین یاہو شکست سے دوچار ہوسکتے ہیں ۔اس دوران نیتن یاہو کی جنگی کابینہ میں سابق فوجی جرنیل شامل ہیں۔ جنہوں نے یہودی اسرائیلی عوام کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت نے اسرائیل اور حماس کی جنگ کے دوران بھی الٹرا آرتھوڈوکس کو سروس سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے۔اسرائیل میں زیادہ تر یہودی مردوں کو ریزرو ڈیوٹی کے طور پر تقریباً تین سال فوج میں خدمات انجام دینے کی ضرورت ہوتی ہے، جب کہ یہودی خواتین کو دو سال لازمی خدمت کرنا ہوتی ہے۔ لیکن کئی دہائیوں سےالٹرا آرتھوڈوکس کے لیے چھوٹ موجود ہے، جو اسرائیلی معاشرے کا تقریباً 13 فیصد ہیں، انہیں مذہبی مدارس میں مکمل وقت پڑھنے کی اجازت ہے اسرائیلی حکومت کو ان خدشات کو دور کرنے کے لیے ایک نیا منصوبہ پیش کرنے کے لیے پیر تک اور اسے منظور کرنے کے لیے 30 جون تک کا وقت دیا ہوا ہے ۔