الیکشن کمیشن عام انتخابات کو یقینی بنانے کے لیے کام جاری رکھے۔پاک سپریم کورٹ
سپریم کورٹ نے بیورو کریسی سے انتخابی ذمہ داریوں کے لئے افسران نہ لینے سے متعلق لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔ عدالت نے لاہور ہائی کورٹ کو عمیر نیازی کی درخواست پر مزید کارروائی سے روک دیا۔ واضح کیا کہ الیکشن آٹھ فروری کو ہی ہوں گے۔ لاہور ہائیکورٹ کو کیس ریکارڈ سپریم کورٹ پیش کرنے کا حکم دے دیا۔الیکشن کمیشن کی درخواست پر چیف جسٹس قاضی فائزعیسی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے سماعت کی ۔۔۔۔الیکشن کمیشن کے وکیل سجل سواتی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف نے لاہورہائیکورٹ میں آر اوز اور ڈی آراوز کی تعیناتی کو چیلنج کیا گیا جس پر لاہورہائیکورٹ نے سٹے دے دیا ۔لاہور ہائی کورٹ میں الیکشن ایکٹ کی دفعہ 50 اور 51 چیلنج کی گئی ہیں۔درخواست گزار چاہتے ہیں ریٹرننگ افسران عدلیہ سے لیے جائیں اورانتظامی افسران کی آر او تعیناتی ہمیشہ کیلئے ختم کی جائے۔الیکشن کمیشن نے عدلیہ کو فروری میں جوڈیشل افسران کیلئے خط لکھا تھا، عدلیہ نے زیرالتواء مقدمات کے باعث جوڈیشل افسران دینے سے معذوری ظاہر کی تھی۔چیف جسٹس نے اسفتسار کیا کہ عمیر نیازی آخر چاہتے کیا تھے؟ ہائیکورٹ اپنی ہی عدالت کی خلاف رٹ کیسے جاری کر سکتی ہے؟پی ٹی آئی کی درخواست پر ہی سپریم کورٹ نے انتخابات کا فیصلہ دیا تھا۔ کیا عمیر نیازی کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کریں؟ ایک جج جب معاملہ لارجر بنچ کے لئے بھیج رہا ہےپھر ساتھ آرڈر کیسے جاری کر سکتا ہے؟ عدالتی استفسار پر وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ نے نوٹیفکیشن معطل کیا تھا اس لیے شیڈول جاری نہیں کر سکے چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا تھا کوئی بھی جمہوری عمل میں رکاوٹ نہیں ڈالے گا۔ کل وہ کہیں گے عدلیہ پر بھی اعتماد نہیں ہے۔کیاعمیر نیازی کی ایک درخواست پر پورے ملک میں انتخابات روک دیں۔جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ عدالتیں نوٹیفکیشن معطل کریں تو متعلقہ ادارہ معطلی کا نوٹیفیکیشن نہیں جاری کرتا۔ سیکرٹری الیکشن کمیشن نے کہا کہ افسران کو الیکشن کمیشن نے حکم دینا ہوتا ہے۔ دلائل کے بعد عدالت نے لاہور ہائیکورٹ کا حکم کالعدم قرار دے دیا۔عدالت نے اپنے حکم میں کہا کہ درخواست گزار صرف سپریم کورٹ سے رجوع کر سکتا تھا۔درخواست گزار اور جج دونوں نے سپریم کورٹ فیصلے کو نظرانداز کیا۔ عدالت نے قرار دیا کہ لاہور ہائی کورٹ میں دائر درخواست بظاہر قابل سماعت نہیں تھی۔