فوجی عدالتیں9مئی واقعات میں ملوث سویلین کا ٹرائل کرسکتی ہیں۔پاک سپریم کورٹ
سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل کالعدم قرار دینے کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے ریمارکس دئیے کہ فوجی عدالتیں ملزمان کا ٹرائل کر سکتی ہیں لیکن حتمی فیصلہ سپریم کورٹ کے احکامات سے مشروط ہوگا۔واضح رہے کہ رواں برس 23 اکتوبر کو سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ملٹری ٹرائل کو کالعدم قرار دے دیا تھا، جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے 9 مئی کے پرتشدد مظاہروں میں ملوث ہونے پر گرفتار عام شہریوں کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف دائر درخواستوں پر محفوظ فیصلہ سنایا تھا۔آج سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل کالعدم قرار دینے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت ہوئی۔جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں 6 رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی، بینچ میں جسٹس امین الدین خان ،جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس عرفان سعادت خان شامل ہیں۔سماعت کے آغاز پر سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ، اعتزاز احسن، لطیف کھوسہ اور سلمان اکرم راجا سمیت نامور وکلا نے جسٹس سردار طارق مسعود پر اعتراض کردیا۔لطیف کھوسہ نے جسٹس سردار طارق سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے بینچ پر موجود ہونے پر اعتراض اٹھایا ہے، جسٹس سردار طارق مسعود نے فریقین کے وکلا سے استفسار کیا کہ آپ کو نوٹس کیا ہے کسی نے؟اعتزاز احسن نے کہا کہ نوٹس سے پہلے ججز پر اعتراض ہو تو اس پر دلائل ہوتے ہیں، سلمان اکرم راجا نے کہا کہ نوٹس ہونے کے بعد اعتراض اٹھانے پر کیس متاثر ہو گا۔لطیف کھوسہ نے کہا کہ جسٹس سردار طارق اپنے نوٹ میں فوجی عدالتوں کی درخواستوں پر رائے دے چکے ہیں۔جسٹس سردار طارق نے وکلا سے استفسار کیا کہ کس نے اعتراض کیا ہے؟ سلمان اکرم راجا نے جواب دیا کہ اعتراض جواد ایس خواجہ نے کیا ہے۔جسٹس سردار طارق نے وکلا سے استفسار کیا کہ کس نے اعتراض کیا ہے؟ سلمان اکرم راجا نے جواب دیا کہ اعتراض جواد ایس خواجہ نے کیا ہے۔جسٹس سردار طارق مسعود نے اعتراضات پر بینچ سے علیحدہ ہونے سے انکار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ میں نہیں ہوتا بینچ سے الگ، کیا کر لیں گے؟ وکلا جسٹس جواد ایس خواجہ کا فیصلہ پڑھ لیں، یہ جج کی مرضی ہے کہ بینچ کا حصہ رہے یا سننے سے معذرت کرے۔جسٹس طارق مسعود نے مزید ریمارکس دیے کہ جواد ایس خواجہ کا اپنا فیصلہ ہے کہ کیس سننے سے انکار کا فیصلہ جج کی صوابدید ہے، میں خود کو بینچ سے الگ نہیں کرتا، معذرت۔لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہمارے اعتراض کے باوجود آپ بیٹھ کر کیس سن رہے ہیں، اس پر جسٹس سردار طارق مسعود نے استفسار کیا کہ تو کیا کھڑے ہو کر کیس کی سماعت کریں؟دورانِ سماعت اٹارنی جنرل غصے میں آ گئے، انہوں نے کہا کہ جب نوٹس نہیں تو اعتراض کیسے سنا جا سکتا ہے؟ جنہوں نے اعتراض کیا وہ خود تو عدالت میں نہیں ہیں، بہتر ہے پہلے بینچ اپیلوں پر سماعت کا آغاز کرے۔دریں اثنا عدالت نے اپیلوں پر سماعت کا آغاز کر دیا، عدالت نے فریقین کے وکلا کو نشستوں پر بیٹھنے کی ہدایت کی۔شہدا فاونڈیشن کے وکیل شمائل بٹ نے اپیل پر دلائل کا آغاز کیا، اس دوران بیرسٹر اعتزاز احسن بھی روسٹرم پر آگئے۔عدالت نے فریقین طرفین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ جاری کیا