گزشتہ ہفتے بھارت سے 70سالہ محمد حسنین ان کے بیٹے 31سالہ اسحاق امیر ہجرت کرکے بذریعہ دبئی اور پھر افغانستان کے راستے کراچی پہنچے ہیں، وہ عارضی طور پر ایدھی ہوم میں رہائش پذیر ہیں۔پولیس نے دونوں باپ بیٹے کو پابند کردیا ہے کہ وہ بغیر اجازت ایدھی ہوم سے باہر نہیں نکل سکتے ہیں۔
میڈیا میں معاملہ آنے کے بعد اور پولیس سیکورٹی اداروں کی جانب سے دونوں باپ بیٹے کے بیانات ریکارڈ کرنے کے بعد انہیں امید ہو گئی ہے کہ پاکستان پناہ دے گا۔وہ پاکستان میں رہائش اختیار کرنے کے ساتھ نوکری یا کوئی کاروبار کرپائیں گے۔
محمد حسنین کا کہنا تھا کہ پاکستان ہجرت کرنے کے لیے چند لاکھ روپے لے کر ستمبر کی 5تاریخ کو بیٹے کے ہمراہ دہلی ائیر پورٹ سے دبئی کے لیے روانہ ہوئے جہاں پر تین دن رہائش کی،دبئی میں پاکستان جانے کی معلومات حاصل کی تو معلوم ہوا کہ انڈین شہری ہیں لہذا افغانستان کے راستے ہی پاکستان داخل ہوسکتے ہیں۔
محمد حسنین کے مطابق دبئی میں قائم افغان قونصل خانے سے رابط کیا اور کابل کا ویزہ حاصل کیا پھر دونوں باپ بیٹے کابل کے لیے روانہ ہوئے،کابل میں بھی تین دن گزرے ایک ایجنٹ سے بات چیت کی تو ایجنٹ نے بتایا کہ اسپین بولدک کے راستے پاکستان میں داخل کراسکتے ہیں،رضامندی ظاہر کرنے پر ایجنٹ ٹیکسی میں بیٹھا کر اسپین بولدک لے آیا اور کچھ ہزار روپے وصول کرکے چمن کے راستے باڈر کراس کرایا۔
ان کے بقول پاکستان کی حدود میں داخل ہونے کے بعد اللہ کا شکر ادا کیا کہ صیح سلامت پاکستان میں داخل ہوچکے ہیں جس کے بعد اگلی منزل کراچی تھی،ایک ٹیکسی ڈرائیور سے بات چیت ہوئی اس نے 50ہزار روپے مانگے اور کہا کہ وہ حب چوکی کے پاس اتار دیں گے،پھر دوسری ٹیکسی کراچی لی مارکیٹ پہنچائے گی،ہم نے ٹیکسی ڈرائیور کو رقم ادا کی پہلے حب پھر لیاری لی مارکیٹ پہنچایا گیا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ لی مارکیٹ پہنچنے کے بعد سب سے پہلے مختلف ہوٹلوں سے رابط کیا لیکن انہیں کسی ہوٹل والے نے کمرہ کرائے پر نہیں دیا،جس پر پریشانی ہوئی۔جس کے بعد متعلقہ پولیس سے رابط کیا انہیں سب سچ بتایا تو پولیس والوں نے تعاون کیا۔
محمد حسنین کے مطابق رہائش کا مسئلہ پولیس نے حل کردیا تھا جب وہ متعلقہ پولیس کے سامنے بیٹھے اپنے بارے میں بتارہے تھے تو انہوں نے گرفتار نہیں کیا،اور کہا کہ آپ ایدھی ہوم چلے جائیں وہاں رہائش مل سکتی ہے۔جب متعلقہ پولیس آفس سے نکل رہے تھے تو ٹیکسی والے کو پولیس اہلکار ہی نے بتایا کہ انہیں سہراب گوٹھ ایدھی ہوم چھوڑ دو،ان جب ایدھی ہوم میں ہوں تو سوچتا ہوں کہ ’’پولیس والوں کو میری عمر پر رحم آگیا‘‘اس لیے گرفتار نہیں کیا۔
70سالہ محمد حسنین نے ’’وائس آف ساوتھ ایشیاء‘‘سے بات چیت کی اور بتایا کہ ان کا تعلق بھارت ’’جھارکھنڈ‘‘ کے علاقے جمشید پور سے ہے،کئی دہائیوں سے دہلی میں رہائش اختیار کی ہوئی ہے۔
ایدھی ہوم میں مقیم محمد حسنین نے بتایا کہ وہ گزشتہ پانچ سال سے فیصلہ کرچکے تھے کہ وہ بھارت سے ہجرت کرکے پاکستان منتقل ہوجائیں گے اس بات کا علم میرے اور اکلوتے بیٹے کے علاوہ کسی کو نہیں تھا۔ بیٹا بھی ساتھ چلنے کے لیے تیار ہوگیا۔
انہوں نے بتایا کہ وہ دہلی میں سماجی کارکن کے طور پر کام کرتے اور صحافت کے پیشے سے بھی وابستہ تھے، اپنا اخبار ’’دی میڈیا پروفائل‘‘ چلاتے تھے۔سوال کے جواب میں بتایا کہ اخبار کی سرکلویشن زیادہ نہیں تھی اور نہ ہی وہ دہلی پریس کلب کے رکن بن سکے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ دہلی پریس کلب کا کسی مسلمان صحافی کے لیے رکن بننا ممکن نہیں ہے ان کی شرائط بہت سخت ہیں ۔اگر وہ پریس کلب کی رکنیت حاصل کی جائے تو مسلمان رہنا مشکل ہوجائے گا۔
محمد حسنین نے بھارت چھوڑنے کی وجہ بتائی کہ میڈیا پر بھارت کی اصل شکل بیان نہیں کی جارہی ہے۔بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ تعصب پرستی برتی جاتی ہے۔خواتین بچیوں کے برقعے نقاب اتار لیے جاتے ہیں۔اسکولوں میں ہندوازم سے متعلق پڑھایا جاتا ہے جے شری رام کے نعرے لگوائے جاتے ہیں،مسلمان نام رکھنا مشکل ہوچکا ہے۔اگر یہ سب کچھ نہ کیا جائے تو پھر مارپیٹ کی جاتی ہے،تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے،کام کرنا مشکل کردیتے ہیں۔
ان کے مطابق انڈین پولیس کو شکایت کی جائے تو پولیس کارروائی نہیں کرتی،الٹا مسلمانوں کو حوالات میں بند کردیا جاتا ہے،مختلف مقدمات درج کرکے جیلوں میں ڈال دیا جاتا ہے اور کہتے ہیں کہ یہ دہشت گرد ہے۔بھارت میں جس مسلمان نے مذہبی تعصب پرستی کے خلاف آواز اٹھائی ان کا برا حال کردیا گیا۔بہت سارے مسلمان رکن اسمبلیوں کی مثالیں موجود ہیں جن میں اعظم خان بھی شامل ہیں جن پر بکری،مشین چوری سمیت دیگر نوعیت کے68مقدمات شامل ہیں،ذرا سوچیں دوسروں کا کیا حال ہوتا ہوگا۔
اس موقع پر 31سالہ اسحاق امیر کا کہنا تھا کہ انہیں ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے بارہا تشدد کا نشانہ بنایاگیا۔ مجھ پر اور میرے والد صاحب پر حملے ہوئے۔متعدد بار انصاف کے لیے پولیس سے رابط کیا لیکن دربدر بھٹکنے کے باوجود انصاف نہ مل سکا۔ ستم ظریفی یہ کہ انتہا پسند تشدد کا نشانہ بناکر جے شری رام کے نعرے لگوانے کے علاوہ مذہب تبدیلی کے لیے دباؤ ڈالتے ہیں۔
اسحاق امیر نے بتایا کہ انہوں نے دہلی سے دسویں اور بارہویں کی تعلیم حاصل کی۔اور ڈین براڈ بینڈ نامی کمپنی میں ملازمت بھی کی ہے مذکورہ کمپنی میں تقریبا چار سے پانچ سال کام کیا جس کے بعد دبئی میں کچھ عرصہ ملازمت کرنے کے بعد واپس بھارت چلا گیا تھا۔
ان کے بقول ابھی پاکستان ہجرت کرنے سے پہلے انہیں دبئی میں چار ہزار درہم کی نوکری مل رہی تھی اس نوکری کو ٹھکرا کر پاکستان آئے ہیں کیونکہ پاکستان میں اپنائیت ہے مذہب ایک جیسا اور زبان بھی ایک جیسی ہے۔ہندو انتہا پسند مسلمانوں کو طعنے دیتے تھے کہ پاکستان چلے جاؤ آج ہم پاکستان آہی گئے ہیں۔
رپورٹ فرحان راجپوت