vosa.tv
Voice of South Asia!

بڑا سوٹ کیس- عالمی ریکارڈز بنانے سے لے کر فلاحی میچ کے لیے بھیک مانگنے تک –ممتاز بھارتی وکٹ کیپر بیٹسمین سید کرمانی کیسے میدان سے باہر کر دیے گئے؟

0

سید کرمانی اپنی نئی کتاب ‘اسٹمپڈ’ میں لکھتے ہیں۔’میری مقبولیت کے باعث میرا کیریئر عروج پر تھا، جس سے کئی لوگوں کے دلوں میں حسد پیدا ہوا،’  اسی دوران مجھے ایک فلم میں اداکاری کا موقع ملا، میں یہاں اس فلم کی تفصیلات میں نہیں جاؤں گا، لیکن اگر آپ میں سے کوئی میری اداکاری کے پہلے تجربے کے کمالات دیکھنا چاہتا ہے تو یوٹیوب پر پوری فلم دیکھ سکتا ہے۔ میڈیا میں میری تصاویر چھپیں جن میں مجھے کراٹے کرتے ہوئے اور مختلف انداز میں دکھایا گیا تھا۔ فلم کی ناکامی کے باوجود، جب میں بھارتی ٹیم کے ہمراہ آسٹریلیا کے دورے پر گیا تو وہاں میں کافی مشہور ہو گیا۔ جب بھی پارٹیوں یا دیگر جگہوں پر جاتا، آسٹریلوی مداح مجھے ‘کوجیک’کہہ کر بلاتے، جو ایک مشہور امریکی ایکشن، کرائم، اور ڈرامہ ٹی وی سیریز کا مرکزی کردار تھا۔  میں ہمیشہ ملنسار رہا اور اپنی مقبولیت کے باوجود کبھی غرور یا خود پسندی نہیں دکھائی۔ میری تربیت نے مجھے زمین سے جڑا رہنا سکھایا تھا۔ اس کے فوراً بعد آسٹریلیا میں، برسبین ٹیسٹ میچ کے دوران میں نے ایلن بارڈر کی ایک شاٹ پر دائیں جانب ڈائیو لگا کر شاندار کیچ پکڑا۔ یہ کیچ چینل 9 نے ہر میچ کے آغاز میں افتتاحی شاٹ کے طور پر استعمال کیا۔ 

میری مقبولیت کی وجہ سے میرا کیریئر تیزی سے آگے بڑھ رہا تھا، اور اس نے کئی لوگوں کے دلوں میں حسد پیدا کیا۔ اگلے دن ٹیم مینیجر نے میڈیا سے بات کی اور حیرت انگیز طور پر یہ اعلان کیا کہ میں زخمی ہوں اور مجھے گھر واپس جانا ہوگا۔ حالانکہ ایسی کوئی چوٹ نہیں تھی، صرف ایلن بارڈر کا کیچ لیتے ہوئے ایک معمولی چوٹ لگی تھی۔ اسے بہانہ بنا کر مجھے ٹیم سے نکال دیا گیا۔ میرے متبادل کے طور پر دوسرے وکٹ کیپر کرن مورے کو شامل کیا گیا۔  یہ واضح تھا کہ وہ مجھے مزید ٹیم میں نہیں رکھنا چاہتے تھے۔ مجھے ایک بار پھر بغیر کسی وجہ کے ٹیم سے نکال دیا گیا، اور اسی کے ساتھ میرا کیریئر ختم ہو گیا۔ میں بہترین فارم میں تھا اور مسلسل اچھی کارکردگی دکھا رہا تھا۔ نہ مجھے 100 ٹیسٹ میچ مکمل کرنے دیے گئے اور نہ ہی میری وکٹوں کی تعداد 200 تک پہنچنے دی گئی۔

1986 کے آسٹریلیا کے دورے کے بعد، میرا کیریئر ختم ہو گیا۔ 1986 سے 1993 تک میں نے ہر ممکن کوشش کی کہ دوبارہ ٹیم میں آؤں، لیکن ایسا لگتا تھا جیسے میرے کیریئر پر ایک بڑا تالا لگا کر چابی سمندر میں پھینک دی گئی ہو۔ آخر کار 1993 میں، میں نے ہار مان لی اور بورڈ آف کرکٹ کنٹرول انڈیا سے اپنے لئے بینیفٹ میچ کی درخواست کی۔  جب میں نے بی سی سی آئی کے سیکریٹری اور کرناٹک اسٹیٹ کرکٹ ایسوسی ایشن (KSCA) کے صدر سے رجوع کیا تو ان کا رویہ انتہائی سخت اور بے حس تھا۔ انہوں نے کہا کہ اگر میں نے 91 یا اس سے زیادہ میچ کھیلے ہوتے تو مجھے فلاحی میچ مل سکتا تھا۔ انہوں نے گنڈاپا وشواناتھ کا حوالہ دیا، جو کرناٹک سے میرے قریبی دوست تھے اور 91 ٹیسٹ کھیل کر ریٹائر ہو گئے تھے۔

پھر میرے التجا کرنے پر بی سی سی آئی نے میری درخواست قبول کی اور مجھے 1994-95 میں نیوزی لینڈ کے خلاف ہوم سیریز کے دوران بینیفٹ میچ دیا گیا مگر ممبئی میں کھیلے گئے اس میچ نے مجھے بہت مایوس کیا کیونکہ ممبئی کے وانکھیڈے اسٹیڈیم میں بینیفٹ میچ کے دوران مجھے معلوم ہوا کہ اس میچ کو 85 لاکھ روپے میں بیچ دیا گیا تھا، جبکہ مجھے صرف 30 لاکھ روپے دیے گئے۔ یہ میرے لیے انتہائی دل خراش لمحہ تھا۔  میچ کے بعد، روی شاستری نے انٹرویو کے دوران کہا، "کرمانی صاحب، آپ اپنے بینیفٹ میچ کی کمائی لے جانے کے لیے بڑا سوٹ کیس تو لائے ہوں گے۔” میں نے ہنستے ہوئے جواب دیا، "میں تو ایک چھوٹا سا سوٹ کیس لایا ہوں، مجھے نہیں معلوم بڑا سوٹ کیس کس کے پاس ہے۔”

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.