vosa.tv
Voice of South Asia!

جنوبی ایشیائی باشندے دل کی شریانوں میں سختی کے مرض میں مبتلا ہونے لگے

0

تحقیق میں شامل ہونے والے40سال سے زائد عمر کے افراد کو100ڈالرز دئیے جائیں گے،نیویارک میں مقیم 55 فیصد سے زائد    پاکستانی اور 50 فیصد سے زائد بنگلہ دیشی موٹاپے کا شکار،یہی امراضِ قلب کی وجہ بنتے ہیں

نیویارک:امریکا میں مقیم جنوبی ایشیائی باشندوں میں دل کی شریانوں میں سختی کا مرض بڑھنے لگا۔وجوہات  جاننے کے لیے ریسرچ شروع کردی گئی۔چالیس سال سے زائد عمر کے صحت مند مرد و خواتین کو امراضِ قلب  سے منسلک طبی  تحقیق میں شامل  ہونے پر سو ڈالر دیے جائیں گے۔تفصیلات  کے مطابق  امریکن  کونسل آف  منارٹی وومن (  اے سی ایم ڈبلیو) نے این وائے یو اور مسالہ اسٹڈی کے ساتھ مل کر  بروکلین میں واقع  مقامی ریسٹورانٹ میں صحتِ عامہ سے متعلق ایک آگہی سیمینار کا انعقاد کیا۔مسالہ  اسٹڈی کے اسسٹنٹ ریسرچ سائنٹسٹ ہارون ظفر نےشرکاء کو موٹاپا، شوگر،ہائپر ٹینشن،بلڈ پریشر اور امراضِ قلب  سے متعلق آگہی دی۔ان کا کہنا تھا کہ مناسب غذا، ورزش کو معمول بنا کر   ذیابطیس، ہائپر ٹینشن، بلڈ پریشر اور دل  کی بیماریوں سے  بچا جاسکتا ہے۔سیمینار میں خواتین و مرد اور بزرگوں کی بھی کثیر تعداد شریک ہوئی۔مسالہ اسٹڈی میں40 سے 84 سال  کے  ایسے مرد وخواتین شامل ہوسکتے ہیں جو کبھی دل کی بیماری یا پیچیدگیوں کا شکار نہ ہوئے ہوں۔طبی معائنے  اور سوالات میں3 گھنٹے  لگیں  گےاور ریسرچ میں شامل ہونے پر 100 ڈالر بھی دیے جائیں گے۔مسالہ اسٹڈی امریکا کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ کی مالی اعانت سے کام کررہا ہے اور حال ہی میں انھیں دل کی بیماریوں کی وجوہات جاننے  کے لیے21 ملین ڈالر  کی فنڈنگ  بھی فراہم کی گئی ہے۔ مسالہ اسٹڈی کی ٹیم کے دیگر اراکین نے  بھی شرکاء کو  بریفنگ دی ۔مقررین کا کہنا تھا کہ نیویارک میں مقیم 55 فیصد  سے زائد پاکستانی اور 50 فیصد سے زائد بنگلہ دیشی موٹاپے کا شکار ہیں ۔وزن کا بڑھنا شوگر اور بلڈ پریشر کو جنم دیتا ہے اور  یہی امراضِ قلب کی وجہ بنتے ہیں۔سیمینار میں امریکی آفیشل بھی شریک ہوئے جنھوں نے مسالہ اسٹڈی کو صحتِ عامہ کے حوالے سے ایک تحفہ قرار دیا۔مسالہ اسٹڈی کے مقررین نے شرکاء کو بتایا کہ مقامی امریکیوں کی نسبتاً پاکستانی اور بنگلہ دیشی کمیونٹی کا طرزِ زندگی صحت مندانہ نہیں ہے،شاید اسی لیے ان پر ماضی میں زیادہ ریسرچ بھی نہیں کی گئی۔اس موقع پر اے ایم ڈبلیو کی چیئر پرسن بازہ روحی اور کمیونٹی کی خواتین شرکاء کا کہنا تھا کہ بہتر زندگی کے لیے ضروری ہے کہ صحت کا خیال رکھا جائے۔ریسرچ میں شامل شرکاء کے خون کے  مختلف  ٹیسٹ کیےجا ئیں گے اور ان کی معلومات قانون کے مطابق خفیہ رکھی جائیں گی۔فی الحال پاکستانی اور بنگلہ دیشی کمیونٹی کو ترجیحی بنیادوں پر شامل کیا جارہا ہے،900 سے زائد بھارتی اس ریسرچ میں شامل ہوچکے ہیں۔  

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.