vosa.tv
Voice of South Asia!

مفلوج شوہر اور معذور بچوں کی نگہبان،عزم وہمت اورحوصلے کی پہچان  

0

فہمیدہ احمد 40 سال سے اپنے 2معذور بچوں کی پرورش اور 20 سال سے مفلوج شوہر کی دیکھ بھال کررہی ہیں۔

نیویارک: (ووسا رپورٹ)میرے شوہر محمد اشفاق 20سال سے چلنے پھرنے اور بولنے سے قاصر ہیں انہیں2004میں فالج ہوا جس کے بعد ٹھیک نہیں ہوسکے ۔مجھ سے شوہر کی بےبسی،معذور بیٹے اور بیٹی کی تکلیف دیکھی نہیں جاتی۔کوئی بچہ ایک یا دو دن بیمار ہوجائے تو مائیں پاگل ہوجاتی ہیں۔مجھے اپنے بچوں کی تکلیف دیکھتے ہوئے40سال سے زائد کا عرصہ گزر گیا ہے بس اللہ سے دعا ہے کہ کوئی کرشمہ ہوجائے اور یہ تینوں ٹھیک ہوجائیں،مجھے یہی فکر کھائے جارہی ہے کہ میرے مرنے کے بعد بچوں کا خیال کون رکھے گا۔یہ بات نیویارک میں مقیم فہمیدہ احمد نے وائس آف ساؤتھ ایشیاء سے بات چیت کرتے ہوئے بتائی۔فہمیدہ احمد نے بتایا کہ وہ1986میں امریکا منتقل ہوگئے تھے اس سے پہلے وہ کراچی کے علاقے پی ای سی ایچ سوسائٹی میں رہائش پذیر تھے۔شوہر محمد اشفاق کا کنسٹریکشن کا کاروبار تھا ۔ایک دن کاروبار میں نقصان ہوا اور ان کی والدہ یہ یعنی میری ساس کا انتقال ہوگیا وہ کوئی بیمار نہیں تھیں چلتے پھرتے دنیا سے رخصت ہوگئیں تھیں۔ شوہر کو ان کی والدہ کے جانے کا صدمہ ہوا کیونکہ وہ والدہ سے بہت محبت کرتے تھے ۔ان کی طبعیت خراب ہونے لگی اور2004میں ان پر فالج کا حملہ ہوا ۔اس کے بعد سے یہ ٹھیک نہیں ہوسکے نہ چل پھر سکتے ہیں نہ ہی بول پاتے ہیں۔انہیں بیمار ہوئے20سال کا وقت گزر چکا ہے ان کی دیکھ بھال خود کرتی ہوں ۔ان کا بہت علاج کرایا لیکن کوئی شفاء نہیں ملی۔جب  یہ ٹھیک تھے تو کام کاج کرتے تھے  ۔فہمیدہ احمد نے اپنے دو معذور بچوں سے متعلق وائس آف ساؤتھ ایشیاء کو بتایا کہ ان کے بیٹے کی عمر45سال ہے اور بیٹی کی عمر40سال کے قریب ہے ۔مجھے اپنے بچوں کی دیکھ بھال کرتے ہوئے40سال  سے زائد کا عرصہ گزر گیا ہے کیا کروں ماں ہوں۔مجھ سے دیکھا نہیں جاتا۔آج کل کوئی بچہ ایک یا دو دن بیمار پڑ جائے تو مائیں پاگل ہوجاتی ہیں۔مجھے اپنے بچوں کو اس حال میں دیکھتے ہوئے40سال سے زائد کا وقت ہوچکا ہے ۔فہمیدہ احمد نے بتایا کہ جب میں38سال سے پہلے نیویارک آئی تو بچے زیادہ بیمار نہیں تھے  باقاعدہ چلتے پھرتے تھے۔یہاں آنے کے بعد آہستہ آہستہ ان کے مسکولر کمزور ہوتے چلے گئے اور ذہنی توازن بھی ٹھیک نہیں ہے اور اب یہ بستر پر آچکے ہیں۔میرے بچے ہیں تو مجھے سے دیکھا نہیں جاتا ان کی دیکھ بھال خود کرتی ہوں ۔اب تو مجھے مدد کی ضرورت ہے کیونکہ میں بوڑھی ہوتی جارہی ہوں۔ان کہنا تھا کہ ہمارا ماحول پاکستانی ہے ،ہم دیسی کھانے بناتے ہیں۔ میرے شوہر  کو آلو قیمہ بہت پسند ہے اور بچوں کو چاول کھانا اچھا لگتا ہے۔تینوں ریگولر کھانا کھاتے ہیں۔میں انہیں کھانا خود کھلاتی ہوں۔یہ خود کھانے کی بہت کوشش کرتے ہیں تو کھانا ضائع ہوتا ہے۔رزق ضائع نہیں کرنا چائیے اس لیے میں خود کھلاتی ہوں۔انہوں نے مزید کہا کہ بس اللہ کی طرف سے آزمائش ہے جسے ہم نے قبول کیا ہے اور بس یہی دعا ہے کہ اللہ  تینوں کو صحت دے ۔فہمیدہ احمد نے کراچی میں گزرائے ہوئے دنوں سے متعلق بتایا کہ ہم پی ای سی ایچ سوسائٹی میں رہا کرتے تھے۔ میرا بیٹا پی ای سی ایچ میں سہارا فاونڈیشن میں خصوصی تعلیم کے لیے جایا کرتا تھا۔جس کے بعد سہارا والوں نے کلفٹن میں برانچ کا افتتاح کیا تو اس موقع پر میں بھی موجود تھی جس کی تصاویر آج بھی موجود ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اس وقت بچے کافی بہتر تھے اپنی عمر کے لحاظ سے پیچھے تھےلیکن چلتے پھرتے تھے ۔اب کہیں آنا جانا نہیں کرسکتی،بچوں کو اس حال میں چھوڑ نہیں سکتی ان کی تکلیف، بے بسی نہیں دیکھ سکتی ۔جب سب لوگ باہر جاتے ہیں تو یہ کہتے ہیں کہ ہمیں بھی باہر جانا ہے۔مجھے تو ان کو تکلیف میں دیکھتے ہوئے 40سال سے زائد کا وقت گزر چکا ہے ۔یہ خوش ہوتے ہیں تو میں خوش ہوتی ہو ں ۔ جب پاکستان میں بھی تھے ان کا  بہت علاج کرایا ۔انہیں بہت ساری گہوں پر لے کر جاتے تھے ۔جس نے جو بھی کہا اس کے پاس لے گئے کوئی حکیم کی  دوائی نہیں چھوڑی ،ڈاکٹروں کے پاس گئے ۔پیر فقیروں سے دم کرائے ،پڑھائی بہت کی کہ کسی طرح میرے بچے ٹھیک ہوجائیں بہرحال اللہ کو جو منظور ہو۔اللہ سے دعا ہے کہ کوئی کرشمہ ہو جائے اوریہ تندرست ہوجائیں ۔بچے اور شوہر تندرست ہوجائیں  تویہی بڑی نعمت ہے ۔انہوں نے بتایا کہ میرا ایک بیٹا اور ہے جو کام کاج کرتا ہے میں نے اسے نصیحت کی ہے کہ ہمارے بعد اپنے بہن بھائیوں کا بہت خیال رکھنا ۔جب تک یہ بچے زندہ ہیں ان کی دیکھ بھال اپنا فرض سمجھ کر کرنا ۔مجھے امید ہے کہ میرا بیٹا میری بات مانے گا ۔ان کا کہنا تھا کہ میں بوڑھی ہوچکی ہوں اور بڑھاپے میں آچکی ہوں مجھےاس وقت یہی فکر ہے کہ میرے بعد میری  بیٹی کا کیا ہو گا۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.