برطانیہ کے ججوں اور وکلا کااسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی بند کرنے کا مطالبہ
برطانیہ ہتھیاروں کی ترسیل جاری رکھنے پر بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوگا
رشی سنک ان بہت سے عالمی رہنماؤں میں سے ایک ہیں جو اسرائیل کے لیے اپنی حکومت کی حمایت کا از سر نو جائزہ لینے کے لیے دباؤ میں ہیں۔برطانیہ کی سپریم کورٹ کے تین ریٹائرڈ ججوں سمیت 600 سے زائد برطانوی فقہا حکومت سے اسرائیل کو ہتھیاروں کی فروخت معطل کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔اسرائیلی حملے میں برطانیہ کے تین امدادی کارکنوں کی ہلاکت کے بعد اس اقدام نے وزیر اعظم رشی سنک پر مزید دباؤ ڈالا ہے۔رشی سنک کو ایک کھلے خط میں، وکلاء اور ججوں نے کہا کہ اگر برطانیہ ہتھیاروں کی ترسیل جاری رکھتا ہے تو وہ "بین الاقوامی قانون کی سنگین خلاف ورزیوں” میں ملوث ہو سکتا ہے۔دستخط کرنے والوں میں، سپریم کورٹ کی سابق صدر برینڈا ہیل نے کہا کہ برطانیہ قانونی طور پر بین الاقوامی عدالت انصاف کے اس نتیجے پر دھیان دینے کا پابند ہے کہ غزہ میں "نسل کشی کا ممکنہ خطرہ” ہے۔خط میں کہا گیا ہے کہ "اسرائیل کو ہتھیاروں اور ہتھیاروں کے نظام کی فروخت بند کرنے پر زور دیا ہے ۔لندن اسرائیل کا ایک مضبوط اتحادی ہے، لیکن جنگ کی تیزی سے بڑھتی ہوئی شہریوں کی ہلاکتوں سے تعلقات متاثر ہوتے نظر آرہے ہیں ۔ وزیر دفاع گرانٹ شیپس نے کہا ہے کہ صرف 2022 میں اسرائیل کو فوجی برآمدات £42 ملین (49 ملین یورو) تھیں۔یہ ایسے پرزے فراہم ہیں جو F-35 اسٹیلتھ لڑاکا طیاروں کا 15 فیصد بنتا ہےیہی طیارے اس وقت اسرائیل غزہ پر مسلسل بمباری کے لیے استعمال کر رہا ہے۔اسلحے کی برآمدات کو روکنے کے مطالبات اس وقت سے بڑھ گئے ہیں جب پیر کو اسرائیلی فضائی حملے میں امدادی چیریٹی ورلڈ سینٹرل کچن کے سات امدادی کارکن ہلاک ہو گئے تھے۔ ہلاک ہونے والوں میں تین برطانوی شہری تھے۔ برطانیہ کی مرکزی اپوزیشن جماعتوں نے کہا ہے کہ کنزرویٹو حکومت کو اسرائیل کو ہتھیاروں کی فروخت روک دینی چاہیے۔