"اک عہد تمام ہوا”
رپورٹ(احسان الرحمن)یہ ان دنوں کی بات ہے جب پاکستان کا بلندیوں کی جانب محو پرواز تھا اور اس پرواز میں اس کی پہچان پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائن تھی ، جسکا ایک جہان میں طوطی بولتا تھا کیا گورے اور کیا کالے ، پی آئی اے کسی کو قریب نہیں پھٹکنے دیتی تھی ، اس کے ہواباز ، پروازیں، پیشہ وارانہ خدمات، شاندار سے کم کچھ نہ تھا امریکی صدر جان ایف کینیڈی کی اہلیہ ،امریکہ کی خاتون اوّل جیکولین کینیڈی نے ایک بار پی آئی اے میں امریکہ سے پاکستان آئیں تو ان کے منہ سے بے ساختہ نکلا
’’باکمال لوگ لاجواب سروس‘‘ اور یہی پی آئی کا سلوگن بن گیا یہ الفاظ کبھی وجہ ء افتخار تھے آج ان طنز، طعنہ اور پھبتی بن چکے ہیں اور درست ہیں اس ادارے کو ہم ایسی ہی بے دردی سے لوٹا ہے کہ اسکے پلے طنز طعنوں کے سوا بچا کیا ہے، حال یہ ہوا چکا ہے کہ حکومت نے اپنی لاجواب سروس فروخت کرنی چاہی تو خریدار ڈھونڈنا مشکل ہو گیا 85 ارب کی متوقع بولی تھی 10 ارب کا بھاؤ لگا ، کون کہے گا کہ یہ وہی ائیر لائن ہے جس نے اِمارات ایئر لائنز اور ملائیشین ایئر لائنز کو کھڑا کیا ، اِمارات ایئر لائنز کو تو پاکستان نے 1988ء میں دو مسافر طیارے ادھار دیئے تھے اور عملہ بھی ساتھ بھیجا تھا کہ شوق پورا کر لو ،آج اِمارات اور ملائیشین ایئر لائنز کے طیاروں کی تعداد سیکڑوں میں ہے باکمال لوگوں کی لاجواب سروس کا سفر اختتام کو پہنچ رہا ہے، قابل رشک عروج کا عبرتناک زوال سامنے ہے یہ سب اپنی جگہ لیکن کیا پی آئی اے کو کھڑا نہیں کیا جاسکتا تھا؟
یہ سوال میرے ذہن سے چپکا ہوا تھا جب میں اسلام آباد کے گوشے میں واقع ایک اور خسارے زدہ ادارے پاکستان ریلویز سے جڑے ریلوے کنسٹرکشن پاکستان لمیٹڈ ‘‘ریل کوپ’’ کا دفترمیں آیا۔ تقریبا تین سال پہلے اس ویران عمارت میں بھی خسارے کی آکاس بیل پھیلی ہوئی تھی، نوے لاکھ روپے کا ماہانہ خسارہ تھا، استعداد کار یہ تھی کہ چالیس برس پرانی یہ کنسٹرکشن کمپنی چالیس کروڑ روپوں سے زائد کے کسی کام میں ہاتھ تک نہیں ڈالتی تھی ریلویز کے کرتا دھرتا بھی معترض نہ تھے کہ لگے بندھے انداز سے ریلویز حکومت سے پیسے لے کر ریل کوپ کو اس کا بجٹ دے دیتے اور ریل کوپ والے صبر شکر کے ساتھ اپنے ملازمین کو تنخواہیں ادا کرکے جو چھوٹے موٹے کام بکھرے ہوتے اسے سمیٹنے کی کوشش کرتے ، پھر یہاں ایک سید زادہ نجم سعید آگیا اس کنسٹر کشن منیجمنٹ کے ایکسپرٹ کے آنے سے اس ادارے کے دن ایسے پھرے کہ ریل کوپ ایک برس میں ہی چھلانگ لگا کر نفع میں چلا گیا۔ اتفاق سے اسی سید صاحب سے آج ملاقات تھی ۔
ریل کوپ کی عمارت باہر سے ویسے ہی دکھائی دیتی ہے جیسے اپنے سرکاری دفاتر ہیں لیکن اندرداخل ہوتے ہی لگتا ہے کہ بندہ کسی ملٹی نیشنل کمپنی میں داخل ہوگیا ہے ، بڑا سا استقبالیہ، شیشے کے دروازے کے پار بڑے سے ہال میں بنے چھوٹے چھوٹے ورک اسٹیشنوں پر کمپیوٹر کے ساتھ کام میں منہمک نوجوان ، یہ سب دیکھنا اچھا لگ رہا تھا سید نجم سعید صاحب اپنے دفتر میں ہی ملے انہیں اپنی فیلڈ میں 33 برسوں کا تجربہ ہے وہ جو کہتے ہیں ناں کہ گھاٹ گھاٹ کا پانی پینا تو نجم صاحب کتنے ہی گھاٹوں کا پانی پی کر اور زمانے کے سرد و گرم دیکھ کر یہاں بیٹھے ہیں ، بات سے بات نکلی تو سید نجم صاحب بتانے لگے کہ کوئی چار برس ہوئے ہوں گے یہاں حال یہ تھا کہ آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ کے نام پر ایک چار ایم بی کا انٹرنیٹ کا کنکنشن اور ایک آئی ٹی ایکسپرٹ تھا جس کا کام ای میلز کو متعلقہ افسران تک پہنچانا یا فوٹو اسٹیٹ کرکے دینا تھا پھر یہاں سفارشیوں کی کھیپ تھی ، کوئی کسی کا بھتیجا تھا تو کوئی بھانجا ۔ میں یہاں سی ای او آیا تھا مجھے ان کے ہونے سے ایشو نہ تھا میرا مسئلہ کام تھا مجھے بہرحال کام چاہئے تھا اور انہیں کام آتا ہی نہیں تھا ان کے کنٹریکٹ میں توسیع نہ کرنے کا سخت فیصلہ کیا گیا پرائیویٹ سیکٹر سے اچھے لوگوں کو یہاں لانا پڑا، بہرحال مشکل سے ہی سہی ٹیم بن گئی اور ہم نے ٹیسٹ میچ کے بجائے ٹی ٹوئنٹی کے اسٹائل میں میچ کھیلنا شروع کیا پہلے ہدایت تھی کہ بڑے کاموں میں ہاتھ نہیں ڈالنا لیکن ہم نے طے کیا کہ بڑے کاموں میں ہی ہاتھ ڈالنا ہے بڑے کام کریں گے تو چھوٹے کام خود ہی مل جائیں گے ،ہم میں اعتماد تھا اچھے باصلاحیت پیشہ ور افراد ساتھ تھے ، ہم بڑے بڑے ٹینڈروں میں جانے اور جیتنے لگے ، ہمارے ریٹ اتنے اچھے ہوتے تھے کہ اسے نظر انداز کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن تھا۔اب ہمارے پاس بڑے بڑے پروجیکٹ ہیں ہم سڑکیں بنا رہے ہیں ، فلائی اوور بنا رہے ہیں ، ہمارے پاس جناح انٹرنیشنل ائیرپورٹ کے رن وے کی از سرنو تعمیر کا کام ہے ہمارے پاس تھرکول میں کوئی گیارہ ارب روپے کا پروجیکٹ ہے ہم اسکردو میں74کلومیٹر طویل سڑک بنا رہے ہیں یہ9 ارب 97 کروڑ لگ بھگ دس کروڑ روپے کا پروجیکٹ ہے ، یہ خالص ہماری محنت ، ٹیم ورک اوراللہ تعالیٰ کی مہربانی ہے ہم ٹینڈروں میں ریٹ ہی ایسے دیتے ہیں کہ ہمارا مدمقابل پیچھے نہیں بہت پیچھے ہوتا ، جائز منافع رکھتے ہیں ،تھرکول والا پروجیکٹ ہم نے 11 ارب 40 کروڑ میں لیا یہی کام ہمارا قریب ترین مدمقابل13ارب 92کروڑ میں کرنے کا خواہشمند تھا اسکردو جگلوٹ والے 74کلومیٹر طویل روڈہم لگ بھگ 10ارب میں بنا کر دے رہے ہیں اور اس ٹینڈر میں دوسرے نمبر پر آنے والے ادارے نے 18ارب روپے کا ٹینڈر بھرا تھا یعنی ہمارا اوران کا فرق 46 فیصد کا تھا۔
نجم صاحب سے بہت سی باتیں ہوئیں موقع غنیمت جان کرپوچھ لیا کہ کیا ہماری ریلوے بھی خسارے سے نکل سکتی ہے یا اسے بیچنا ضروری ہے؟ کہنے لگے ‘‘ریل کو کسی طور نہیں بیچنا چاہئے ریلویز اگر اپنی کمرشل زمینوں کو ہی مناسب طریقے سے استعمال کرلے تو اس کی کمر سیدھی ہوجائے ۔یہ جو راولپنڈی ریلوے اسٹیشن کے پاس 45 کنال زمین ہے اس پر کثیر المنزلہ عمارت بنا کر بنکوں،وئیرہاؤسوں ، پارکنگ ایریاز کے کمرشل استعمال کرکے اتنا کمایا جاسکتا ہے کہ جوآپکی سوچ ہے یہاں سے 85 ارب 33 کروڑپندرہ سال اور ساڑھے پانچ ارب سالانہ نفع کا تخمینہ ہے، میری حیرت اور استعجاب پر نجم سعید صاحب نے لطف اندوز ہوتے ہوئے مزید کہا ایک چھوٹا سا پروجیکٹ ہے مری میں ریلویز کے پاس 12 ایکڑ کا گیسٹ ہاؤس ہے، ویرن پڑا رہتا ہے برا حال ہے اس پربہترین ہوٹل بن سکتا ہے ہم نے ایک بار اس پرکام کیا تھا اس پرکوئی چار ارب چالیس کروڑ کے اخراجات تھے یہ پانچ برسوں میں پورے ہوجانے تھے ،دس برسوں میں اس ہوٹل نے 8ارب روپے لوٹا دینے تھے ۔
باتوں سے بات نکلی تونجم صاحب نے بتایا کہ ایک ترک کمپنی یہاں آئی تھی اس کے ایک افسر سے دوستی ہوگئی اس نے مجھے کہا کہ پاکستان کوئٹہ تفتان ٹریک پر ریل کیوں نہیں چلاتا؟ اس ٹریک پر سال کا نوے بلین ڈالر کاریونیو ہے ۔نجم سعید کے پاس کہنے کو اتنا کچھ تھا کہ دن رات میں ڈھل جائے پر افسوس کہ کوئی سننے والا نہیں ، ہمارے پاس مریض ہی نہیں مسیحا بھی ہیں ان کے پاس علاج بھی ہے ہم انہیں موقع تو دیں ، نجم سعید وینٹیلیٹر پر پڑے ریل کوپ کو کھڑا کرسکتا ہے تو خسارے کے کینسر میں پڑے سرکاری اداروں کا بھی کوئی نجم سعید علاج کرسکتا ہے بشرط ہم ان اداروں کی زندگی چاہیں اگر ہم نے ان بیمار مویشیوں کو اونے پونے قصابوں کو دینے کا فیصلہ کر ہی لیا ہے تو سرد آہوں سے موسم سرد کرتے ہیں۔۔۔