ڈیوڈ بینکس ایف بی آئی کا ہدف نہ ہونے کی یقین دہانی پر تقریب میں پہنچ گئے
اسکولز چانسلر نے ترقی کا جشن منایا اور نیویارک کے اسکولوں کے لیے مزید کام کرنے کے لیے پرعزم
نیویارک(ویب ڈیسک)ایک طرف ایف بی آئی تحقیقات تو دوسری طرف اسکولز چانسلر ڈیوڈ بینکس اسکولوں کی ترقی کا جشن منا رہے ہیں۔انہوں نے کوئنز میں فرینک سیناترا اسکول آف آرٹس ہائی اسکول میں اپنے”اسٹیٹ آف ہمارے” اسکولز میں شرکت کی اور خطاب کیا۔انہوں نے ماہرین تعلیم اور میڈیا کو بھی دعوت دی تھی کہ وہ بھی تقریب میں شریک ہوں۔اس موقع پر چانسلر بینکس نے کہا کہ ریڈز پروگرام کے ساتھ منسلک ملک کے سب سے بڑے اسکول ڈسٹرکٹ میں کامیابی حاصل کرنے والے طلبا کا ذکر کیا اور کہا ہمارے اسکولوں کے طالب علم ترقی کی طرف گامزن ہیں کیونکہ وہ محنت کررہے ہیں۔ہمارے اسکول اعلی معیار کے ہیں۔انہوں نے کہا کہ صرف اسی سال NYC Reads اور NYC Solves کے پروگراموں سےسے نصف ملین سے زائد طلباء مفید ہوں گے۔ اگر آپ شہر میں کہیں بھی پری کے کلاس روم میں جائیں تو بچے اسی نصاب سے سیکھ رہے ہیں لیکن جب طلباء کو درپیش مسائل کی بات آتی ہے یہ مسائل فوری طور پر حل نہیں ہوتے کیونکہ حل ہونے میں وقت لگتا ہے۔ چانسلر نے اعتراف کیا کہ ابھی بھی بہت سا کام کرنا باقی ہے۔ ہم اپنے تمام طلباء کے تیسرے درجے تک گریڈ لیول پر ہونے کی بنیاد رکھ رہے ہیں اور یہ طویل مدتی ہے۔ جیسا کہ ہم نے دوسری ریاستوں اور اضلاع میں دیکھا ہے جنہوں نے اپنی خواندگی کے طریقہ کار کو کامیابی میں تبدیل کیا ہے۔ بینکس کا کہنا تھا کہ مجھے یقین ہے کہ ہم صحیح راستے پر ہیں اور یہ کہ NYC Reads اور NYC Solves کے اثرات آنے والے سالوں تک شہر میں پھیلیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ اس سال کی ترجیحات میں شامل ہیں کہ پسماندہ علاقوں میں تیز رفتار ہائی اسکول کھولے جائیں اور اپنی نوعیت کا پہلا HBCU Early College Prep School کوئنز میں کھلنے والا ہے۔انہوں نے ذہنی صحت پر DOE کی جامع پوزیشن پر زور دیا جو نوجوانوں کو مفت ٹیلی تھراپی کی پیشکش کرتا ہے۔بینکس نے کہا کہ1لاکھ40ہزار عملے کی اجتماعی لگن کے ساتھ نیویارک سٹی پبلک اسکول مشن کو آگے بڑھانے اور ہمارے تمام اسکولوں کو بلند کرنے کے لیے متحد ہیں۔بینکس نے کہا کہ دنیا میں ہر کوئی چیلنجوں سے گزرتا ہے۔جس کے بینکس نے خطاب ختم کیا گزشتہ ہفتے ایف بی آئی نے ان کے دو موبائل فون ضبط کرلیے تھے اور گھر پر بھی چھاپہ مارا تھا ۔بینکس نے اس حوالے سے کوئی بات نہیں کی۔ جب صحافیوں نے بینکس سے پوچھا کہ کیا ایف بی آئی کے پاس اب بھی ان کے فون موجود ہیں۔ توجواب ملا کہ ان کے وکیل نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ تحقیقات میں "ایف بی آئی کابالکل ہدف نہیں ہیں۔یہ کہہ کر بینکس چل دئیے۔