‘‘سمندر پار پاکستانیوں کی چاہ اور آہ’’
ملک صاحب میرے پاس کسی اچھے وکیل کے ریفرنس کے لئے آئے تھے انہیں سول کیسز کا کوئی اچھا وکیل چاہئے تھا جو اسلام آباد ہائی کورٹ میں کیس لڑ سکے، برسوں پہلے مجھے استاد نے کہا تھا کہ یاد رکھو کبھی کسی کو کسی وکیل اور ڈاکٹر کا مشورہ نہیں دینا ان کی قابلیت ملزم اور مریض کی قسمت پرانحصار کرتی ہے میں نے معذرت چاہی لیکن بہت اصرار پر چند وکیلوں کے نام لے دیئے ملک صاحب نے اپنے بیٹی کے سسرالیوں پر کیس کر رکھا تھا
بات سے بات نکلی اور ملکی اقتصادی حالات پر آکر رک گئی میں نے کہا کہ سمندر پار پاکستانی ملک کو اس گرداب سے نکال سکتے ہیں جس پر ملک صاحب نے تلخ لہجے میں کہا سمندر پار پاکستانیوں کے لئے پاکستانیوں نے پاکستان میں چھوڑا ہی کیا ہے ، یہ تعلق کمزور اور کچا ہوتا جا رہا ہے
ملک صاحب کا یہ جملہ ایک ایسی کہانی کا آغاز تھا جس کی اداسی روح کو بھی بوجھل کردے میرے کریدنے پر ملک صاحب کی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی ان کی کپکپاتی انگلیوں میں سگریٹ لرز رہی تھی انہوں نے طویل سانس لی اور مجھ سے کہنے لگے ‘‘ کمرے کی کھڑکی کھول دیں گے پلیز ’’
میں اٹھنے کو تھا کہ میرا دوست جلدی سے اٹھا اور کھڑکی کا سلائیڈنگ پٹ سرکا دیا کمرے میں یخ بستہ ہوا کا جھونکا یوں در آیا جیسے وہ اسی لمحے کا منتظر تھا باہر دو روز سے ہونے والی مسلسل بارش سے جاتا جاڑا کسی کی پکار پر رک گیا تھا۔
میری آنکھیں ملک صاحب کے تھکے ہوئے چہرے پر جمی ہوئی تھیں ملک صاحب گفتگو کے آغاز کے لئے لفظ ترتیب دے رہے تھے میں اٹھا ان کے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور ہمدردی سے کہا ‘‘ پریشان نہ ہوں وقت کیسا بھی ہو گزر جاتا ہے ’’ اس ایک جملے پر ملک صاحب سسک اٹھے وہ بچوں کی طرح سسک سسک کر رو رہے تھے انہیں ساتھ لانے والا میرا دوست جو رشتے میں ان کا بھانجا لگتا ہے انہیں چپ کرانے لگا میں نے اشارے سے اسے منع کردیا کہ جی کا بوجھ ہلکا ہوجائے،
کرب اشکوں میں ڈھل کر ملک صاحب کی آنکھوں سے بہنے لگا کمرے کی فضا کچھ اور اداس ہو گئی کچھ دیر بعد ملک صاحب نے لمبی سانس لے کر کمرے میں پھیلی خموشی سمیٹی اور پردیس کہانی سنانے لگے
‘‘میں انیس سال کا لڑکا تھا جب ماموں کے ساتھ ڈنکی لگا کر ترکی کے راستے یونان گیا اور وہاں سے دھکے کھاتا ہو اسپین پہنچ گیا یہاں ایک پرمشقت زندگی میری منتظر تھی میں ڈیل ڈول کا مضبوط تھا اس لئے مجھے ہر اس کام کے لئے موزوں جانا جانے لگا جو دوسروں کے بس کا نہ ہوتا تھا ، میرے ساتھ مسئلہ یہ بھی تھا کہ مجھے پنجابی اور اردو کے سوا کوئی زبان نہ آتی تھی اس لئے نوکری بھی نہ ملتی اب تو خیر میں پانچ زبانیں بول لیتا ہوں، میں بتا رہا تھا کہ میں نے بڑی مشکل زندگی گزاری ہے پارکوں میں بنچوں پر سویا سردیوں میں ٹھٹھر کر جگ رتے کئے یہ کہانی پھر کبھی سہی ، مختصر یہ کہ تھکا دینے والی زندگی گزارنے کے بعد ایک دوست کے ساتھ مل کر گھر میں ہی بوکاریو بنانے لگا یہ ایک طرح کے برگر ہوتے ہیں ہم حلال گوشت کے برگر بناتے تھے اس لئے دیسی اور ان مسلمانوں میں کام چل پڑا جو نئے نئے اسپین آتے ہیں اور حلال حرام کے معاملے میں بہت احتیاط کرتے ہیں ہمارا اوپر والے نے ہاتھ پکڑ لیا اب ہم امپاناڈیس بھی ساتھ بنانے لگے یہ اسپینی سموسے سمجھ لیں کام بڑھتا رہا اور میں آٹھ نو سال میں بیکری کا مالک بن گیا میرے دوست نے ریسٹورنٹ کھول لیا ہمیں اس مقام تک پہنچنے میں بیس سال لگے محنت مشقت میں شادی کا خیال بھی نہیں رہا ،میں گھر میں تیسرے نمبر پر تھا لیکن ساری ذمہ داریاں مجھ پر تھیں، دونوں بہنوں کی شادیاں کیں ، گاؤں کے کچے گھر کو پکا کیا بھائیوں کو زمینوں کے لئے وہ ٹریکٹر لے کر دیئے جو ہر سال خراب ہوجاتے تھے زیرو میٹر مشین کب اور کتنی خراب ہوتی ہے یہ آپ بھی جانتے ہو اور میں بھی لیکن بھائیوں کو ہر سات آٹھ مہینے بعد پیغام آ جاتا کہ ٹریکٹر خراب ہوگیا ہے یا ٹیوب ویل کا کام نہیں کررہا یہ دونوں مسئلے نہ ہوتے گھر کے کسی کمرے کی چھت ٹپکنے لگ جاتی ، یہ سارے خرچے مہینے کے خرچ سے ہٹ کر ہوتے تھے ، پھر بھائیوں نے کہا کہ یہاں زرعی ادویات کا کام شروع کرتے ہیں اس کے لئے تیس لاکھ روپے بھیجے انہوں نے ملک برادرز کے نام سے کاروبار شروع کیا پھر ماں کا حکم آیا کہ بھائیوں کی شادی کرنی ہے اور جیسا کہ ہم گاؤں والوں کا مزاج ہوتا ہے کہ شادی ایسی ہو کہ دنیا یاد رکھے دونوں بھائیوں کی شادی ایسی ہی ہوئی پورے گاؤں کو دعوت دی سات بیل زبح کئے تھے اور اس سے پہلے دونوں کو الگ الگ کمرے بھی بنا کر دیئے قصہ مختصر یہ کہ میں اے ٹی ایم مشین بنا ساری ضرورتیں پوری کرتا رہا…