آئی ایم ایف نئی حکومت کے ساتھ ملکر کام کرنے کا منتظر
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے کہا ہے کہ وہ پاکستان کے تمام شہریوں کی خوشحالی یقینی بنانے اور ملکی معیشت کو مستحکم رکھنے کے لیے نئی حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے کا منتظر ہے۔آئی ایم ایف کی جانب سے یہ بیان اس وقت سامنے آیا ہے، جب تحریک انصاف کے سینیٹر علی ظفر نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ جیل میں قید بانی پی ٹی آئی عمران خان الیکشن میں مبینہ دھاندلی کے معاملے پر آئی ایم ایف کو خط لکھیں گے۔بیرسٹر علی ظفر نے کہا تھا کہ عمران خان کی جانب سے آئی ایم ایف کو خط لکھا جائے گا، جس میں کہا جائےگا کہ جتنے حلقوں میں دھاندلی ہوئی وہاں آڈٹ کرایا جائے۔بیرسٹر علی ظفر نے بتایا تھا کہ بانی پی ٹی آئی کی جانب سے خط آئی ایم ایف کو جاری کیا جائے گا، آئی ایم ایف، یورپی یونین اور دیگر آرگنائزیشن کا اپنا ایک چارٹر ہے، ان کا چارٹر کہتا ہے ملک میں اسی وقت وہ کام کی اجازت، قرض دیں گے جب گڈ گورننس ہو، گڈ گورننس کی اہم شق یہ ہے کہ ملک میں جمہوریت ہو، جس ملک میں جمہوریت نہیں وہاں بین الاقوامی ادارےکام کرنا پسند نہیں کرتے۔انہوں نے کہا تھا کہ پوری دنیا نے دیکھا لوگوں کا مینڈیٹ رات کے اندھیرے میں چوری ہوا، اگر الیکشن فری اینڈ فیئر نہیں ہوئے تو کوئی بھی ادارہ قرض نہیں دے سکتا، جو قرضہ دیا جائے گا عوام پر بوجھ بڑھے گا۔بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ ایسی حکومت جس کے پیچھے عوام کا اعتماد نہ ہو وہ قرض واپس کرنے میں ناکام ہوگی، ایسی حکومت ملک کی ترقی میں، بحرانوں کوحل میں ناکام رہے گی۔بعدازاں، آج (23 فروری کو) ایک پریس بریفنگ کے دوران آئی ایم ایف میں کمیونیکیشن ڈیپارٹمنٹ کی سربراہ جولی کوزیک سے اس بارے میں پوچھا گیا کہ کیا پاکستان جون 2023 میں طے پانے والے اسٹینڈ بائی معاہدے کی تیسری قسط کو حاصل کرنے کے راستے پر گامزن ہے۔ان سے یہ بھی پوچھا گیا کہ کیا آئی ایم ایف عمران خان کی جانب سے انتخابی بے ضابطگیوں کی تحقیقات کا مطالبہ کرنے والے کسی خط کو قبول کرے گا؟اپنے جواب میں جولی کوزیک نے کہا کہ 11 جنوری کو آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ نے پاکستان کے ساتھ اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ کے پہلے جائزے کی منظوری دی تھی، جس سے مجموعی طور پر 1.9 ارب ڈالر کی ادائیگیاں ہوئیں۔انہوں نے کہا کہ عبوری حکومت کے دور میں حکام نے معاشی استحکام کو برقرار رکھا۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’میں صرف اتنا کہنا چاہتی ہوں کہ ہم پاکستان کے تمام شہریوں کے لیے معاشی استحکام اور خوشحالی کو یقینی بنانے کے لیے نئی حکومت کے ساتھ پالیسیوں پر تعاون کی توقع رکھتے ہیں۔‘جب ان سے عمران خان کے ممکنہ خط پر تبصرہ کرنے کے لیے کہا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ ’میں ملک میں جاری سیاسی پیش رفت پر تبصرہ نہیں کروں گی، اس لیے میرے پاس اس حوالے سے کہنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔قبل ازیں، امریکی جریدے بلوم برگ نے امکان ظاہر کیا کہ پاکستان عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے ساتھ نئے پروگرام کے لیے 6 ارب ڈالر قرضے کی درخواست کرے گا۔بین الاقوامی جریدے کے مطابق اس سال واجب الادا قرض ادائیگی میں مددکے لیے نئے قرضے کی درخواست کی جائےگی۔پاکستان آئی ایم ایف سے توسیعی فنڈ کی سہولت پر بات چیت کرے گا، آئی ایم ایف کے ساتھ بات چیت مارچ یا اپریل میں شروع ہونے کی توقع ہے۔