امریکی شہریت کا خواب ادھورہ رہ گیا،پاکستانی شہری کی27سال بعد واپسی
محمد مظفر 1997میں بہتر مستقبل کے لیے امریکا گئے،خالی ہاتھ واپس آئے،بچے باپ کو وہیل چیئر پر دیکھ کر لپٹ کر دیر تک روتے رہے۔
نیویارک(بیورو رپورٹ)نیویارک میں27 سال مقیم رہنے کے بعد84 سالہ معمر پاکستانی شہری محمد مظفر بالاآخر پاکستان واپس چلے گئے۔دوستوں نے محمد مظفر کی واپسی کے سارے انتظامات کیے اور نیویارک ایئرپورٹ سے الوداع کیا۔کراچی پہنچے تو طویل عرصے بعد بیٹا اور بیٹیاں باپ سے لپٹ کر رو پڑے۔محمدمظفر کی آنکھیں کئی برسوں سے اپنوں اور بیوی بچوں کے دیدار کی منتظر تھیں۔یہ تڑپ ملنے پر ختم ہوئی۔قیام پاکستان سے قبل 2 جنوری 1941 کو لاہور میں آنکھ کھولنے والے محمد مظفر نے تقسیمِ ہند کے وقت تو ہجرت نہ کی لیکن نہ جانے کیا سوچ کر1997 کے لگ بھگ55یا56 برس کی عمر میں امریکا آگئے اور پھر یہیں کے ہوکر رہ گئے۔روشن مستقبل کی تلاش تھی یا شاید ادھورے سپنے کو حققیت میں بدلنا تھا۔اسی طرح وقت کا پہیہ گھومتا رہا اور محمد مظفر نے27 سال نیویارک ہی میں گزار دئیے۔محمد مظفر تعلیم یافتہ ہیں اور وہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے 1960 میں انگریزی زبان میں ماسٹر کیا اور بعد ازاں سول ایوی ایشن میں ملازمت اختیار کرلی تھی۔نیویارک میں کونی آئی لینڈ ایونیو جسے لٹل پاکستان بھی کہا جاتا ہے یہاں ان کے دوست احباب انہیں کرنل صاحب کہہ کر مخاطب کرنے لگے۔ اس دوران کئی حکومتیں تبدیل ہوئیں۔محمد مظفر گرین کارڈ اور امریکی شہریت کے حصول کی کوشش کرتے رہے لیکن شاید قسمت کو یہ منظور نہ تھا۔ اُدھر پاکستان میں بیوی بچے ان کی راہیں تکتے رہے کہ نہ جانے یہ انتظار کب ختم ہوگا۔امریکا کی تیز رفتار اور مصروف ترین زندگی میں جہاں ہر کوئی ترقی کی ریس میں دوڑ رہا ہے ۔وہیں اسی شہر میں گورمے ریسٹورانٹ کے مالک قیصر چودھری نے کم و بیش 10 سال محمد مظفر کی کفالت کی اور ضرورتوں کا بھی خیال رکھا۔پاکستانی کمیونٹی کے افراد بتاتے ہیں کہ محمد مظفر کوئی17سال مکی مسجد کے خدمت گار بھی رہے۔ انسان کو بظاہر تو دو وقت کی روٹی اور دو کپڑوں کی ضرورت ہوتی ہے آخر انسان ہے اور کب تک کام کرے۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ صحت خراب رہنے لگی تو دوستوں نے مل کر فیصلہ کیا کہ محمد مظفر کو واپس پاکستان اہلخانہ کے پاس بھیج دینا چائیے ۔دوستوں کی کوششوں سے ایمرجنسی سفر ی دستاویزات تیار کی گئیں اور سب کی کوششوں سے پاکستان جانے کا انتظام بھی ہوگیا۔روانگی سے قبل دوست محمد مظفر کے ساتھ مکی مسجد میں سب جمع ہوئے اور گلے ملے تاکہ وہ منزل مقصود تک پہنچ جائے اور سب دوست اپنے یار محمد مظفر کو ایئر پورٹ چھوڑنے کے لیے آئے اوروہیں سے محمد مظفر کو الوداع کیا۔نیویارک سے براستہ دبئی طویل پرواز اور پھر دبئی سے کراچی کا سفر طے کرکے رات گئے جناح انٹر نیشنل ایئر پورٹ پہنچے جہاں ان کا بیٹا محمد مجتبی اور دو بیٹیاں اپنے باپ کی آمد کی منتظر تھیں۔ سفری دستاویزات پاسپورٹ اور شناختی کارڈ نہ ہونے وجہ سے قانونی کارروائی میں بھی وقت لگا لیکن بچوں کے لیے انتظار تھا کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا اور پھر بالاخر انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں اور ایک وہیل چیئر پر محمد مظفر جیسے ہی باہر آئے تو بچے باپ سے لپٹ گئےاور کیوں نہ لپٹتے ۔ کئی برسوں باپ کی گوداور شفقت نصیب ہوئی لیکن اب محمدمظفر عمر کے اس حصے میں ہیں کہ انہیں خود توجہ اور شفقت کی ضرورت ہے۔