نیویارک(تحریر:آیت اللہ ڈاکٹر سخاوت حسین سندرالوی)ڈیرہ غازی خان سے تعلق رکھنے والے فقیہ اہل بیت، نابغۂ روزگار، مفسر قرآن،مروج ولاء و عزاء،ماہر مدرس،معلم اخلاق،منکسر المزاج،متبسم دائمی،سو سے زائد کتب کے مصنف و مؤلف، معروف ادیب و شاعر، عالم باعمل، فاضل اجل،سفیر امن،ہمارے محسن اور برادر بزرگ حضرت آیت اللہ علامہ حاج شیخ حسن رضا غدیری صاحب قبلہ لندن میں داعئی اجل کو لبیک کہہ گئے۔”جانا تو ہم سب نے ہے دیر یا سویر”۔ اللہ عاقبت بخیر فرمائے۔آغا مرحوم تعلیم و تدریس میں ید طولیٰ رکھتے تھے۔ خطابت میں مہارت کاملہ رکھتے تھے۔ عربی، فارسی، اردو، سرائیکی ، پنجابی اور انگلش میں خطاب فرماتے تھے، جنبۂ ولایت اہل بیت و جذبۂ فروغ عزاء آپ کو ورثے میں ملا تھا۔ ولایت علی آپ کا موضوع سخن رہتا تھا۔عبادت گزار و شب زندہ دار اور وضع دار تھے۔اہل زبان نہ ہوتے ہوئے رموز اردو سے مکمل آشنا تھے۔عربی عربوں کی طرح۔ فارسی ایرانیوں کی طرح اور اردو لکھنؤ یوں کی طرح بولتے تھے۔جب آپ گفتگو فرماتے تو آپ کے منہ سے موتی جھڑتے تھے۔ اخلاق اہل بیت کا نمونہ تھے۔ جب ہم قم گئے تو اآپ کا طوطی بول رہا تھا۔ پاکستانی نژاد علماء و طلبہ میں آیت اللہ کا شمار درجہ اولی کے فضلاء میں ہوتا تھا۔آپ ہم جیسے چھوٹے طلبہ پر بڑے شفیق و مہربان تھے۔ آپ مہمان نوازی میں اپنی مثال آپ تھے۔ہماری پوری سرپرستی فرمائی۔ نجف،قم،برطانیہ اور دمشق میں مراکز دین قائم کیے۔ اہل بیت ٹی وی کے بانی تھے۔اپنے شہر میں والدہ کی یاد میں شفاخانہ بنایا۔بڑے غریب پرور تھے۔یتیم نواز تھے۔ اللہ نے آپ کو بڑا دل دیا تھا۔ استاذالعلماء آیت اللہ محمد یار شاہ صاحب قبلہ نجفی کے لائق ترین شاگردوں میں سے تھے۔ان کے خانوادہ کے عقیدت مند تھے۔جامعت المنتظر میں طالبعلم رہے تو طراز اول کے اور استاد رہے تو درجہ اولی کے۔ میرے استاد علامہ محمد رضا غفاری قبلہ کے ہم جماعت تھے۔آغا نے پسماندگان میں بیوہ، چار فرزندان ، دو صاحب زادیاں اور گرینڈ چلڈرن چھوڑے ہیں۔ میں جب بھی مانچسٹر جاتا تو پہلے آغا کی خدمت میں حاضری دیتا اور پھر آپ کے حکم کی تعمیل میں خطاب کرنے چلا جاتا تھا۔مانچسٹر میں کاظمی سادات سے اور لندن میں سب سے انہوں نے ہی میرا تعارف کرایا تھا۔راقم اور برادرم آیت اللہ راجہ محمد مظہر علی خان نے جب قم میں عمومی تدریس شروع کی تو آغا نے آیت اللہ سید نیاز حسین نقوی قبلہ کے ساتھ ملکر ہم پر بڑی شفقتیں فرمائیں۔ ہم دونوں اور سینکڑوں طالب قم آپ کے احسانات کو کبھی بھول نہ پائینگے۔ آپ نے سینکڑوں شاگرد چھوڑے ہیں۔جو طلبہ مالی طور پر کمزور ہوتے آغا ان کی پردہ پوشی سے مدد فرماتے تھے۔ المہدی سینٹر بروکلین اور محمدیہ سینٹر ورجینیا میں آپ نے نے عشرات محرم بھی پڑھے ۔آپ کے والد بزرگوار علامہ مفتی مزمل حسین میثمی غدیری بہت بلند پایہ عالم با عمل تھے اور آپ کے صاحب زادے علامہ ہاشم غدیری نجفی بھی معروف عالم اور بلند پایہ خطیب ہیں۔آپ کے دیگر فرزندان آغایان غدیری برادران ابوطالب، محسن اور محمد رضا بھی اہل خیر ولایتی اور پکے عزادار ہیں۔ آپکے داماد علامہ آغا مرزا محمد جواد بھی معروف عالم و خطیب ہیں۔ جب کہ صاحب زادیاں بھی ذکر اہل بیت کرتی ہیں۔ آغا کی60 سالہ دینی ،علمی، ادبی، سماجی خدمات سنہرے حروف سے لکھی جائیں گی۔آپ کی تصانیف اردو، فارسی اور عربی میں ہیں۔ آپ نے وقت کا صحیح استعمال کیا اور کوئی لمحہ ضائع نہیں کیا۔ جس روز آغا کا انتقال ہوا، اسی روز شیرازی برادران جواد و فواد صاحبان سے ورجینیا میں ظہرانہ پر ملاقات ہوئی تو انہوں نے بتایا ادارہ محمدیہ کیلئے قبلہ کی بڑی خدمات تھیں۔ آغا کامیاب زندگی گزار کر گئے ۔”عاش سعیدا و مات سعیدا”۔مجھے آخری بار اس سال محرم کی تیرہ کو آپ کی زیارت کا شرف ملا۔ جب شیخ محمد رضا کے ساتھ مانچسٹر سے آپ کے دولت خانہ پر عیادت کیلئے حاضری دی۔ سال گزشتہ ایسے ہی سید علی ذوالفقار کاظمی اور تقوی صاحب کے ہمراہ اسپتال میں ملے تھے۔اب مانچسٹر جاتے ہوئے لندن کا وہ روٹین اسٹاپ ختم ہوگیا۔آج لندن جاتے ہوئے دکھی دل کے ساتھ یہ سطور جہاز میں لکھی تھیں اور اس شعر پر کالم ختم کیا تھا ۔”زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا،تمہی سو گئے داستاں کہتے کہتے”۔ جب قبلہ کے گھر پہنچے تو آج وہ مسکراہٹ نہ ملی۔ آج وہ شفقت نہ ملی۔ آج جواب سلام بھی سنائی نہ دیا آہ و فغاں تھی۔آج ہمارے محسن کی آنکھیں بند تھیں ۔ بس تصویر نظر آئی اگلے روز بہت بڑا جنازہ ہوا ۔علماء و زعماء کی شرکت دیدنی تھی۔ وصیت کے مطابق ان کے فرزند ارجمند نے نماز جنازہ پڑھائی ۔ قبلہ مرحوم نے فرمایا تھا کہ میں نے اسی لیے آغا ہاشم رضا کو عالم بنایا تھا کہ میرا جنازہ پڑھائیں۔اہلیان برطانیہ اور یورپ نے خانوادہ غدیری کے ساتھ اظہار تعزیت و ہمدردی کا حق ادا کردیا ہے ۔اللہ ان سب کے مرحومین کو بخشے اور درجات بلند فرمائے۔ آپ تو دفن ہو گئے مگر یقین ہے حضور پاک ؐ خانوادۂ ابوتراب نے اپنے سچے عاشق و خدمت گزار و عزادار کو سنبھالا ہوگا۔میں دو دن کا جاگا ہوا تھا مگر تدفین کے بعد تہجد تک نیند نہیں آئی۔دنیا میں کروڑوں عقیدت مند انہیں ہمیشہ دعاؤں میں یاد رکھیں گے۔عمر بھر وہ تعمیر بقیع کیلئے کام کرتے رہے انہیں قبر بھی جنت البقیع نامی قبرستان لندن میں ملی۔کانپتے ہاتھوں کے ساتھ، لرزتے دل کے ساتھ اس مضمون کو ختم کرتا ہوں ۔ 46 سالہ برادری رفاقت شفقت سرپرستی لمحہ بہ لمحہ یاد آئے گی۔آپ اگر چہ جلدی چلے گئے مگر خاتمہ بخیر ہوا۔آپ کو تلاوت قرآن و ذکر اہلبیت کے ساتھ ساتھ آہوں اور سسکیوں میں جنت البقیع قبرستان لندن میں سپرد خاک کردیا گیا۔ تدفین کے وقت رقت آمیز مناظر دیکھے گئے۔ علامہ ہاشم رضا غدیری اور ان کے برادران نے غسل و تجہیز و تکفین و تدفین کے فرائض خود انجام دئیے تھے۔نماز جنازہ الحجت امام بارگاہ سٹین مور میں ادا کی گئی جہاں علماء و زعماء کی بڑی تعداد موجود تھی۔تاریخ لندن کے بڑے جنازوں میں سے یہ ایک بہت بڑا جنازہ تھا۔ جنازے کے بعد مجلس عزاء سے علامہ ڈاکٹر محمد حسین اکبر نے خطاب کیا۔ تدفین کے وقت آیت اللہ محمد صادق کرباسی نے تلاوت قرآن۔راقم نے پہلی تلقین اور علامہ مرزا محمد جواد نے دوسری تلقین پڑھی۔تدفین کے وقت علامہ ڈاکٹر محمد حسین اکبر،مولانا شیخ مصطفی جعفری،سید علی افتخار کاظمی،سید امتیاز کاظمی،سید یاور شاہ،سجاد کاظمی سید یاسر سمیت عزاداران لندن بھی موجود تھے۔علامہ ہاشم رضا غدیری، آغایان ابوطالب غدیری، محسن غدیری، محمد رضا غدیری و غدیری فیملی نے تمام شرکت کنندگان کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا ہے۔ 28 اگست کی صبح بڑی اداس تھی جب فقیہ اہل بیت مجتہد العصر، نابغہ روزگار، عظیم مدرس و مفکر، ادیب و شاعر، مفسر ومحدث کو سپرد خاک کر دیا گیا۔تدفین کے وقت مصائب اہل بیت پڑھے گئے۔یسین و ملک کی تلاوت ہوئی۔ فاتحہ خوانی و نوحہ خوانی کی گئی۔مرحوم آیت اللہ کے لیے مجالس ترحیم کا سلسلہ دنیا بھر میں تدفین کے بعد سے شروع ہو چکا ہے۔قبلہ جیسے مربی قوم روز روز پیدا نہیں ہوتے۔”ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے۔بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا”۔اب تہجد ادا کرتا ہوں قبلہ اور دیگر مرحومین کو دعا دیتا ہوں۔آپ سب سے طالب دعاہوں۔سخاوت حسین سندرالوی