اسلام فحاشی برائی سے منع کرتا ہے،شراب جوا شیطانی عمل ہے،خیانت نہ کرو اور حق نہ کھاؤ۔خطبہ حج
20 لاکھ سے زائد فرزندان اسلام کی موجودگی میں مسجد نمرہ میں شیخ ڈاکٹر ماہر بن حمد نے خطبہ حج دیتے ہوئے کہا ہے کہ اپنے فلسطنی بھائیوں کے کیے خوب دعائیں کریں جو مصیبتوں میں ہیں جہاں کھانا، پانی اور امن نہیں ہے۔ خطبہ حج میں کہا گیا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے دین اسلام کو لوگوں کے لیے پسند کیا ہے، اے لوگو! مصیبتوں اور فساد سے دور رہو، اللّٰہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو رحمت بنا کر بھیجا، اسلام فحاشی اور برائی سے منع کرتا ہے، اسلام امانت میں خیانت سے منع کرتا ہے، کسی کا حق مت کھاؤ، شراب اور جوا شیطانی عمل ہے، جو مومنوں کو تکلیف دیتے ہیں کبھی فلاح نہیں پاسکتے، ایک دوسرے سے تعاون کرو، مدد کا جذبہ قائم کرو، اللّٰہ تعالیٰ گناہ معاف کر کے درجات بلند کرنے والا ہے۔شیخ ڈاکٹر ماہر بن حمد نے خطبہ حج میں کہا کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات میں واحد ہے، پیغمبرﷺ کی عزت کرنے والوں نے فلاح پائی۔انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نےحضرت محمدﷺ کو رحمت بنا کر بھیجا، جن لوگوں نے پیغمبر ﷺکی عزت کی، ایمان لائے اور اس نور الہیٰ کی پیروی کی جو نازل ہوا، وہ ہی کامیاب لوگ ہیں۔انہوں نے کہا کہ رسول ﷺ نےفرمایا کہ اے لوگو، میں اللہ کا رسول ہوں، جس کے ہاتھ میں ساری کائنات ہے، وہی زندہ کرتا اور مارتا ہے، وہ برحق ہے، اس پر ایمان لاؤ، اے لوگوں اللہ سے ڈرتے رہو اور اس دن سے ڈرو جس دن والد بیٹے کے اور بیٹا والد کے کام نہیں آئے گا، بے شک اللہ کا وعدہ سچا ہے، تمہیں دنیا کی چمک اور شیطان دھوکے میں نہ ڈال دے۔خطبہ حج میں کہا گیاکہ جو متقی ہے، اس کو دنیا اور آخرت میں بہترین انجام ملے گا، اللہ فرماتا ہے کہ وہ متقی لوگو کو فلاح کے ساتھ نجات دیتا ہے۔اس میں کہا گیا کہ اللہ سے ڈرو جس طرح ڈرنے کا حق ہے، اس دن ڈرو جس کوئی کسی کے کام نہیں آئے گا، بے شک اللہ کا وعدہ سچا ہے اور قیامت قائم ہوگی، اس دن کوئی دنیا کا دھوکہ اور مال و متاع کسی کے کام نہیں آئے گا۔خطبہ حج میں کہا گیا کہ اے ایمان والو اللہ سے ڈرو، جو اللہ سے سچے دل سے ڈرے گا ، ہر معاملے میں اللہ کا خوف تمہارے دل میں رہنا چاہیے، اللہ تعالیٰ اس کے راستے نکالے گا۔اس میں کہا گیا کہ دنیا کے ہر معاملے میں اللہ کا خوف تہمارے دل میں رہنا چاہیے، تقویٰ ہر مسلمان پر واجب ہے کہ ہر نیکی کرتے ہوئے اخلاص کے ساتھ مبنی ہو، اللہ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق ہو۔انہوں نے کہا کہ یہ اللہ کا فیصلہ ہے کہ صرف اس کی عبادت کی جائے، اے لوگو، اللہ کی عبادت کرو جس نے تمہیں پیدا کیا، ایک جان سے، حضرت آدم علیہ السلام سے ساری انسانیت کا سلسلہ چلایا، اللہ کا ارشاد گرامی ہے کہ تمہارا ایک معبود ہے، اسی کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ صلہ رحمی کرو، قریبی رشتے داروں کا حق ادا کرو۔خطبہ حج میں کہا گیا کہ اللہ کی وحدانیت کی گواہی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے رسول ہیں، اس کی شہادت، اس کی گواہی اور اللہ کے رسول کے فرامین کو اپنی زندگی کا اسلوب بنانا، یہ بات ذہن نشین رکھو کہ تمہاری چھوٹی چھوٹی چیزیں بھی اللہ تعالیٰ کے احاطہ علم میں ہے۔خطبہ حج میں کہا گیا کہ دیکھو مسلمانوں، اللہ سے ڈرو، نمازوں کو قائم کرو، انہیں اپنے وقت پر ادا کرو، نمازوں کی پابندی کرو، اللہ تمہیں بڑے قریب سے دیکھ رہا ہے، اسے پتا ہے کہ تم کیا کر رہے ہو، عبادت میں کتنے مخلص ہو، اللہ کے راستے میں صدقہ، خیرات کرو، تمہاری نمازیں، صدقہ، خیرات، تمہاری قربانی اللہ کی رضا کے لیے ہونی چاہیے۔انہوں نے کہا کہ اور یہ بات ذہن نشین رکھو کہ اللہ کے رسول پر جو قرآن نازل ہوا، یہ لوگوں کے لیے ہدایت ہے، جو شخص رمضان کے مہینے کو پالے، اس کو چاہیے کہ پورے مہینے کے روزے رکھے، اگر صاحب استطاعت ہے تو بیت اللہ کا حج کرے۔اس میں کہا گیا کہ اسلام یہ ہے کہ آپ گواہی دیں کہ اللہ کے سوا دنیا میں کوئی معبود نہیں اور نبی ﷺؑ اللہ کے نبی اور سچے رسول ہیں اور ایمان یہ ہے کہ آپ ایمان اللہ پر، اس کے رسولوں پر اور جنتی بھی شریعتیں ہیں، ان پر ایمان لائیں، جب اللہ کی عبادت کریں تو یہ گمان کریں کہ گویا کہ آپ اللہ کو دیکھ رہے ہیں، اگرچہ آپ اللہ کو نہیں دیکھ رہے لیکن اللہ آپ کو دیکھ رہا ہے۔خطبہ حج کے اختتام پر شیخ ڈاکٹر ماہر بن حمد نے کہا کہ جس مقام پر تم کھڑو، اس مقام پر رسول اللہ ﷺ نے حطبہ دیا اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو اقامت کہنے کا کہا، اس کے بعد آپ ﷺ نے ظہر اور عصر کی نماز پڑھائی، اس کے بعد اپنی اوٹنی پر کھڑے ہوئے، ذکر کیا، دعائیں کیں حتیٰ کا سورج غروب ہوگیا، پھر مزدلفہ کی طرف نکلے تاکہ لوگ سکون پاسکیں، وہاں مغرب کی تین رکعت اور عشا کی دو رکعت پڑھیں اور پھر فجر پڑھی، پھر منیٰ گئے، پھر کنکریاں ماریں، پھر قربانی کی، پھر حلق کیا اور طواف کے لیے بیت اللہ تشریف لے گئے اور یہ 10تاریخ ہوگئی۔انہوں نے کہا کہ پھر اللہ کے رسول ﷺ ایام تشریق میں منی ٰ کی طرف واپس آگئے، اللہ کی تکبریں بلند کرتے رہے، تینوں جمرات کو کنکریاں مارتے رہے، عذر رکھنے والوں کو منیٰ میں نہ رکھنے کی اجازت دے دی اور آپ ﷺ تیرھویں رات تک منی میں رہے، پھر یہاں سے فارغ ہو کر آپ ﷺ نے سفر کیا، جاتے جاتے بیت اللہ کا طواف کرتے رہے، طواف وداع۔ان کا کہنا تھا کہ اے بیت اللہ کے حاجیوں، رسول اللہﷺ عرفہ میں کھڑے ہوئے، روزہ چھوڑ دیا تاکہ طاقت رہے اور اللہ کا ذکر ہو، دعائیں ہوں، دوسرے لوگ روزہ رکھتے ہیں اور آپ ﷺذکر کرتے رہے، دعائیں مانگتے رہے، روتے رہے، آپ بھی رسول اللہﷺ کی اتباع میں اپنے اللہ سے دعائیں مانگو، وہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا، خوف و طبع سے اپنے رب کو پکارو، رب کی رحمت محسنین کے بہت قریب ہے۔شیخ ڈاکٹر ماہر بن حمد نے کہا کہ اے حاجیوں اپنے لیے دعا کرو، اپنے والدین اور جس نے بھی صلہ رحمی کی اور تمہارے ساتھ نیکی کی، ان کے لیے دعا کرو۔انہوں نے کہا کہ ’اپنے بھائی کی غیر موجودگی میں دعا کرو، تہمیں بھی وہی ملے گا، فرشتہ بھی وہی کہے گا، اور وہ جو مصیبتوں میں ہیں، فلسطین میں ہیں، جنگ پہنچ چکی ہے، ٹوٹ پھوٹ گئے، اہل فلسطین کے لیے دعا کرو، پانی بھی نہیں ہے، بجلی بھی نہیں ہے، کھانا بھی نہیں ہے، جگہ نہیں ہے، امن نہیں ہے، اپنے ان فلسطینی بھائیوں کے لیے خوب دعا کرو، سب سے زیادہ ان کے لیے دعا کرو جو مستحق ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ان کے لیے بھی دعا کرو جنہوں نے اہل فلسیطن کو کھانا دیا، انہیں ایمبولنس دی، احسان کیا، نیکی کی، ان کے لیے بھی دعا کرو۔انہوں نے دعا کرتے ہوئے کہا کہ ’اے اللہ حاجیوں کا حج قبول فرما، ان کی قربانیاں قبول فرما، ان کو اپنے گھروں میں خیریت سے پہنچادے، اے اللہ ان کی ضرورتیں پوری فرمادے، ان کے عزتیں اور مال محفوظ فرما، آمین ثم آمین‘۔