امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بائیں بازو کے کارکنوں کے گروپ "اینٹیفا” کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کا اعلان کیا ہے۔
بدھ کی شب اپنی سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشیل پر جاری بیان میں ٹرمپ نے اینٹیفا کو "بیمار، خطرناک اور تباہی” قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ایک "بڑی دہشت گرد تنظیم” ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ جو افراد اینٹیفا کو فنڈنگ فراہم کرتے ہیں، ان کے خلاف اعلیٰ قانونی معیار کے مطابق تحقیقات کی جائیں گی۔اینٹیفا دراصل ایک نیٹ ورک ہے جو دائیں بازو کی انتہا پسندی اور فاشزم کے خلاف سرگرم کارکنوں پر مشتمل ہے، جس کا کوئی باضابطہ رہنما یا تنظیمی ڈھانچہ موجود نہیں۔ اس بنا پر ماہرین اور ناقدین کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کا اعلان قانونی پیچیدگیوں میں گھر سکتا ہے۔ امریکی قانون میں کسی مقامی گروپ کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کا کوئی واضح طریقہ کار موجود نہیں ہے۔ٹرمپ کے اس اعلان سے چند روز قبل وائٹ ہاؤس کے اعلیٰ حکام نے کہا تھا کہ وہ بائیں بازو کے کارکنوں کے مبینہ طور پر منظم "گھریلو دہشت گردی کے نیٹ ورک” کو ختم کریں گے، جسے حال ہی میں دائیں بازو کے مبصر چارلی کرک کے قتل سے جوڑا جا رہا ہے۔ اس واقعے میں 22 سالہ یوٹاہ کے رہائشی کو ملزم ٹھہرایا گیا ہے، تاہم حکام نے ابھی تک قتل کی محرکات واضح نہیں کیے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ ٹرمپ اس واقعے کو سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ریپبلکن سینیٹر بل کیسیڈی نے ٹرمپ کے اعلان کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ صدر نے اینٹیفا کے "تشدد اور انارکی پر مبنی کردار” کو درست طور پر پہچانا ہے۔ تاہم قانونی ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ اقدام آئینی آزادیِ اظہار اور اجتماع کے بنیادی حقوق کو چیلنج کر سکتا ہے، کیونکہ ماضی میں بھی ٹرمپ کی پہلی مدت صدارت کے دوران ایسے اقدامات ناکام ہو چکے ہیں۔یہ پیش رفت امریکہ میں سیاسی تقسیم کو مزید گہرا کر رہی ہے، جہاں ایک طرف قدامت پسند حلقے اسے سراہ رہے ہیں تو دوسری جانب ناقدین اسے سیاسی انتقام قرار دے رہے ہیں۔