امریکا میں 6 دہائیوں بعد پہلی بار تارکین وطن کی تعداد میں کمی
امریکی تھنک ٹینک پیو ریسرچ سینٹر کی نئی رپورٹ کے مطابق امریکا میں تارکین وطن کی مجموعی آبادی میں 1960 کی دہائی کے بعد پہلی مرتبہ کمی دیکھی گئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق جنوری 2025 میں یہ آبادی 5 کروڑ 33 لاکھ کے ساتھ ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر تھی، لیکن چھ ماہ بعد یعنی جون میں یہ تعداد کم کر 5 کروڑ 19 لاکھ رہ گئی، یعنی تقریباً 10 لاکھ افراد کی کمی واقع ہوئی۔ماہرین کے مطابق اس کمی کی بڑی وجہ 2024 میں بائیڈن انتظامیہ کی سرحدی پالیسی تبدیلیاں اور 2025 میں ڈونلڈ ٹرمپ کی سخت امیگریشن کارروائیاں ہیں، جن میں بڑے پیمانے پر گرفتاریوں، ڈی پورٹیشن، ویزا اسکروٹنی، پناہ گزینوں کی آمد پر کٹوتی اور قانونی امیگریشن پر نئی رکاوٹیں شامل ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق تارکین وطن کی آبادی میں سب سے زیادہ حصہ نیچرلائزیشن طریقہ کار کے تحت شہریت حاصل کرنے والوں کا ہے جو 46 فیصد ہیں۔ ان کے بعد غیر قانونی تارکین وطن 1 کروڑ 40 لاکھ یعنی 27 فیصد کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہیں۔ مستقل رہائشی (گرین کارڈ ہولڈرز) تقریباً 1 کروڑ 19 لاکھ یعنی 23 فیصد ہیں جبکہ عارضی طور پر قانونی رہائشی افراد 21 لاکھ یعنی 4 فیصد ہیں۔اگرچہ مجموعی کمی ریکارڈ ہوئی ہے، امریکا میں غیر قانونی تارکین وطن کی تعداد اب بھی 2023 کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ پیو کے مطابق بائیڈن دور میں پناہ گزینوں اور عارضی تحفظ یافتہ افراد کے اضافے نے غیر قانونی آبادی کو بلند ترین سطح تک پہنچایا تھا، لیکن ٹرمپ کی سخت کارروائیوں اور ڈی پورٹیشنز نے اب اس رجحان کو کمزور کیا ہے۔ امریکا میں تارکین وطن کی شرح آبادی رواں سال جنوری میں 15.8 فیصد تھی جو جون میں گھٹ کر 15.4 فیصد رہ گئی۔