کیا پاکستان میں محنت کشوں کو کبھی ان کے بنیادی حقوق مل سکیں گے۔؟؟

تحریر: زین ندیم

یکم مئی  دنیا بھر میں مزدوروں کے ساتھ  اظہار یکجہتی کے طور پر منایا جاتا ہے، یہ دن تمام شعبوں اور صنعتوں میں مزدوروں کی محنت کا اعتراف کرنے کے لیے وقف ہے ۔ یہ دن ہر سال  تاریخ میں مزدوروں کی جدوجہد اور کامیابیوں کی یاد دہانی کے طور پر  منایا جاتا ہے اور معاشرے کی تشکیل اور ترقی کو آگے بڑھانے میں ان کے اہم کردار کا اعتراف کرتا ہے۔پاکستان میں یوم مزدور کو خاص اہمیت حاصل ہے یہ دن  ان لاکھوں محنت کش افراد کو خراج عقیدت پیش کرتا ہے جو ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ تعمیراتی کارکنوں سے لے کر فیکٹری کے ملازمین تک، کسانوں سے لے کر صحت کی دیکھ بھال کرنے والے پیشہ ور  ڈاکٹرز تک، ہر طرح کے رنگ و نسل سے بے نیاز ہوکر اہم افرادی قوت کی نمائندگی کرتے ہیں جو ملک کی ترقی اورخوشحالی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں  ۔

ہر سال کی طرح اس سال بھی لیبر ڈے کیے حوالے سے ملک بھر میں تقریبات  ہوئیں جن کا مقصد مزدوروں کو عزت دینا اور لیبر فورس کو درپیش اہم مسائل کو حل کرنا تھا ۔ سرکاری اہلکار، مزدور یونین، اور سول سوسائٹی کی تنظیمیں کارکنوں کے حقوق اور بہبود کی وکالت کرنے کے لیے اکٹھے ہوئیں۔ مگر دیکھنا یہ ہے کے یہ سب باتیں محض ایک دن کے لیے ہی رہیں گی یا اس سے  حقیقت میں ایک عام دیہاڑی دار مزدور کی زندگی میں بھی  کوئی فرق پڑیگا ، مہنگائی کے اس دور میں جہاں ہر شہ ایک عادمی کی قوت خرید سے دور ہوچکی ہے وہاں حقیقی  معنوں میں لوگوں کی زندگیوں میں کس حد تک تبدیلی ممکن ہوسکے گی۔ ؟؟؟

مزدوروں کی زندگی میں تبدیلی لانے کے لیے محض ایک دن منا لینا ہی کافی نہیں بلکہ اس کے لیے ضروری یہ ہے کہ  عام آدمی کے لیے ایسے اقدامات کیے جائیں جس میں  انکے لیے کام کے حالات کو بہتر بنانا اور کارکنوں کے لیے روزگار کے مواقعوں  کو بڑھانا شامل ہو۔ ان اقدامات میں پیشہ ورانہ تربیتی پروگراموں کا آغاز، کام کی جگہوں پر حفاظتی ضوابط کا نفاذ، اور کارکنوں اور ان کے خاندانوں کے لیے سماجی بہبود کے فوائد کی فراہمی جیسی بنیادی چیزیں شامل ہونی چاہیئں ۔

حالیہ برسوں میں پیش رفت کے باوجود پاکستان میں کارکنوں کی فلاح و بہبود اور خوشحالی کو یقینی بنانے میں چیلنجز بدستور موجود ہیں۔ کم اجرت، ملازمت کے تحفظ کی کمی، اور صحت کی دیکھ بھال اور تعلیم تک ناکافی رسائی جیسے مسائل لاکھوں مزدوروں کو متاثر کر رہے ہیں۔ پاکستان اگر مستقبل کی طرف دیکھ رہا ہے تو یہ ضروری ہے کہ ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ٹھوس کوششیں کی جائیں اور ایسا ماحول پیدا کیا جائے جہاں تمام کارکن  اور  مزدور ترقی  کریں اور خوشحال زبدگی بسر کرسکیں۔ یوم مزدور درحقیقت  مزدوروں کے حقوق کے لیے جاری جدوجہد اور پاکستان اور دنیا بھر میں محنت کشوں کے وقار اور حقوق کو برقرار رکھنے کی اجتماعی ذمہ داری کی یاد دہانی کا کام کرتا ہے۔

یوم مزدور کے موقع پر کراچی، لاہور، حیدرآباد، کوئٹہ سمیت دیگر بڑے شہروں میں  ریلیاں  نکالی گئیں اور مظاہرے کیے گئے۔مزدوروں، ٹریڈ یونینوں اور مزدور تنظیموں نے نجکاری، کم اجرت اور ملازمت کے عدم تحفظ جیسے مسائل پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے فعال طور پر حصہ لیا۔ ریلیوں نے اجتماعی کارروائی کے لیے پلیٹ فارم کے طور پر کام کیا، جس میں شرکاء نے مزدوری کے استحصالی طریقوں کے خلاف اپنے مطالبات اور شکایات کا اظہار کیا۔ جلسوں میں بار بار چلنے والا موضوع قومی اداروں بالخصوص ریلوے کی نجکاری کی شدید مخالفت تھی۔ ان ریلیوں اور مظاہروں میں کم از کم اجرت میں خاطر خواہ اضافے کے لیے  مطالبات کیے  گئے  تاکہ مہنگائی کے اس دور میں  بڑہتے ہوئے اخراجات کو پوارا کیا جاسکے اور  عام شہریوں کے معیار  زندگی کو بہتر کیا جاسکے ۔

مزدوروں کا عالمی دن پاکستان کی طرح  پاکستان کے پڑوسی ممالک جیسے بھارت، بنگلہ دیش اور سری لنکا میں بھی منایا گیا ان ممالک کے عوام کو بھی اپنی حکومت سے مزدوروں کے حقوق کے حوالے بہت سی شکایات ہیں  وہاں کےمزدوروں نے بھی اپنے حقوق کے لیے ریلی نکالی۔ پاکستان میں مزدوروں کا عالمی دن منانا ان گہرے مسائل کی عکاسی کرتا ہے جو محنت کشوں کو پریشان کر رہے ہیں، جن میں استحصال، کم اجرت، اور ملازمت کے تحفظ کا فقدان شامل ہیں تاہم ٹھوس حکومتی کارروائی کا فقدان موجودہ لیبر پالیسیوں کی افادیت اور کارکنوں کی شکایات کو دور کرنے کے لیے حکومت کی بنائی گئی  پالیسیز نا کافی  نظر آتی ہیں دیکھا جائے تو ہمیشہ سے ہی پاکستان میں مزدور کی اجرت میں اضافہ اور ملازمت کے عدم تحفظ کے خلاف تحفظ جیسے مسائل پر کبھی بھی قابل زکر توجہ نہیں دی گئی جو مزدوروں کے حقوق کے لیے حکومت کی طرف سے کیے گئے بلند و بالا دعووں پر  سوالیہ نشان ہے اور مزدور طبقے کے یہ مسائل حکومتی توجہ کے منتظر ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت مزدوروں کے مطالبات کو حل کرنے کے لیے فوری اقدامات کرے، جس میں اجرت میں اضافہ اور ملازمت کا تحفظ شامل ہے۔ ان سارے معاملات کو حل کرنے کے لیے ضروری ہے کے حکومتی سطع پر مزدوروں کے حقوق کو ترجیح دینے والی موثر پالیسیز بنائی جائیں۔ حکومت اور سول سوسائٹی کو چاہیے کے ملکر ایک ایسے معاشرے کی تشکیل کریں  جہاں تمام  محنت کشوں کو انکے بنیادی حقوق دیے جائیں جہاں ہر کارکن کے ساتھ عزت، احترام اور انصاف کے ساتھ برتاؤ کیا جائے۔

Comments (0)
Add Comment