سخت امیگریشن پالیسی، قانونی راستے بھی بند ہونے لگے
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سخت امیگریشن پالیسیوں کے تحت امریکا میں مقیم تارکینِ وطن کے لیے قانونی طور پر ملک میں قیام کے امکانات نمایاں طور پر محدود ہو گئے ہیں۔
سرکاری اور غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صدر ٹرمپ کے دورِ صدارت کے پہلے 11 ماہ میں 16 لاکھ سے زائد افراد اپنی قانونی حیثیت سے محروم ہو چکے ہیں۔ ان میں وہ افراد بھی شامل ہیں جو امیگریشن پیرول، ویزا، پناہ، اور ٹیمپریری پروٹیکٹڈ اسٹیٹس جیسے مختلف پروگراموں کے تحت باقاعدہ اجازت کے ساتھ امریکا آئے تھے۔ یہ تعداد امریکی شہر فلاڈیلفیا کی مجموعی آبادی سے بھی زیادہ بتائی جا رہی ہے۔امیگریشن کے حامی اداروں کا کہنا ہے کہ یہ اقدام امریکا کی تاریخ میں قانونی طور پر مقیم تارکینِ وطن کو ڈی پورٹیشن سے حاصل تحفظ ختم کرنے کی سب سے بڑی کوشش ہے اور ممکنہ طور پر اصل تعداد اس سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے۔ امیگریشن ایڈووکیسی تنظیم FWD.us کے صدر ٹوڈ شولٹے کے مطابق یہ وہ افراد تھے جنہوں نے حکومت کے طے کردہ قانونی راستوں کے تحت درخواستیں دیں اور منظوری حاصل کی، مگر بعد ازاں ان کی قانونی حیثیت ختم کر دی گئی۔ ان کے بقول کسی بھی سابق امریکی صدر نے اس پیمانے پر قانونی حیثیت اور ورک پرمٹس ختم کرنے کو اپنی پالیسی کا مرکزی نکتہ نہیں بنایا۔کئی متاثرہ افراد برسوں سے امریکا میں مقیم ہیں اور اب انہیں خدشہ ہے کہ اگر ان کے امیگریشن کیسز بروقت مکمل نہ ہوئے تو انہیں ملک چھوڑنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔ انتظامیہ کی جانب سے ایسے افراد کو خود ملک چھوڑنے کی حوصلہ افزائی بھی کی جا رہی ہے۔ یو ایس سٹیزن شپ اینڈ امیگریشن سروسز کے ترجمان کے مطابق حکومت کا مؤقف ہے کہ امریکی ٹیکس دہندگان کو غیر قانونی طور پر مقیم افراد کا مالی بوجھ نہیں اٹھانا چاہیے، جبکہ ناقدین کا کہنا ہے کہ اس پالیسی کے نتیجے میں مزید افراد ڈی پورٹیشن کے خطرے میں آ گئے ہیں۔ادھر ہوم لینڈ سیکیورٹی کی جانب سے قانونی راستوں میں مزید کمی کے لیے ویزا لاٹری پروگرام کو بھی معطل کرنے کا اعلان کیا گیا ہے، جس کے مستقبل پر غیر یقینی صورتحال برقرار ہے۔ اس کے علاوہ ٹیمپریری پروٹیکٹڈ اسٹیٹس (TPS) کے تحت 10 ممالک کے شہریوں کے لیے تحفظ ختم کیا جا چکا ہے، جبکہ کچھ فیصلے عدالتی کارروائی کے باعث عارضی طور پر رکے ہوئے ہیں۔ انتظامیہ کا مؤقف ہے کہ ایسے پروگرام عارضی نوعیت کے ہوتے ہیں، تاہم ماہرین اور وکلا کا کہنا ہے کہ ماضی میں ان پروگراموں کے خاتمے کے لیے متعلقہ ممالک میں حالات کی بہتری ثابت کرنا ضروری سمجھا جاتا رہا ہے۔