ٹرمپ انتظامیہ نے نیواورلینز میں ایک بڑے امیگریشن کریک ڈاؤن کا آغاز کرتے ہوئے درجنوں وفاقی ایجنٹس کو تعینات کردیا۔
ہوم لینڈ سیکیورٹی کے مطابق یہ کارروائی اُن تارکینِ وطن کے خلاف ہے جن پر سنگین جرائم کے الزامات ہیں۔ذیادہ ہسپانک آبادی والے علاقوں میں نقاب پوش ایجنٹس نے متعدد گھروں اور مارکیٹوں کے باہر گھیراؤ کیا، جبکہ شہریوں نے ہوم ڈپو اور لوئیز جیسے اسٹورز کے باہر گرفتاریوں کی ویڈیوز بھی بنائیں۔سرکاری ریکارڈ کے مطابق 200 سے زائد یو ایس کسٹمز اینڈ بارڈر پروٹیکشن اور آئی سی ای اہلکار اس آپریشن کا حصہ ہیں، جس کا مقصد آئندہ 60 دنوں میں زیادہ سے زیادہ گرفتاریاں کرنا ہے۔ حکام نے تصدیق کی کہ کارروائی اُن افراد کے خلاف ہے جو گھروں میں گھسنے، مسلح ڈکیتی اور ریپ جیسے جرائم میں پہلے گرفتار ہوچکے تھے مگر ضمانت پر رہا تھے۔ اس آپریشن کو “کاٹاہولا کرنچ” کا نام دیا گیا ہے جبکہ منصوبہ بندی دستاویزات میں اسے “سوامپ سویپ” بھی کہا گیا ہے۔نیواورلینز کی مہاجر برادری میں شدید خوف اور بے یقینی پائی جارہی ہے۔ بعض کاروبار بند کر دیے گئے ہیں جبکہ متعدد دکانوں نے دروازوں پر نوٹس لگا دیا ہے کہ وفاقی امیگریشن اہلکاروں کا داخلہ ممنوع ہے۔ریاستی گورنر جیف لینڈری نے کہا کہ یہ کارروائی “بدترین مجرم غیر قانونی تارکینِ وطن” کے خلاف ہے اور یہ مہم اُس وقت تک جاری رہے گی “جب تک ہم ان سب کو سڑکوں سے نہ ہٹا دیں۔” حکام کے مطابق اس کریک ڈاؤن کا ہدف 5,000 افراد کی گرفتاری ہے، اور ممکن ہے کہ نیشنل گارڈ کے دستے بھی کرسمس سے پہلے نیواورلینز پہنچ جائیں۔ دوسری جانب امیگریشن رائٹس گروپس نے نئی ریاستی قانون سازی کے خلاف عدالت سے رجوع کیا ہے، جس کے تحت وفاقی کارروائی میں مداخلت یا ویڈیو بنانے کو جرم قرار دیا جا سکتا ہے، جس سے ان کی سرگرمیوں پر “خاموش کر دینے والا اثر” پڑ رہا ہے۔