چینی AI خاموشی سے سلیکون ویلی میں حکمرانی کے قریب
امریکی ٹیکنالوجی کی دنیا میں ایک خاموش مگر نمایاں تبدیلی جاری ہے۔ چینی مصنوعی ذہانت (AI) ماڈلز تیزی سے سلیکون ویلی میں اپنی جگہ بنا رہے ہیں۔ نہ صرف امریکی کمپنیاں انہیں اپنانے لگی ہیں بلکہ کئی معروف ٹیک رہنما بھی ان کی کارکردگی کی تعریف کر رہے ہیں۔
رپورٹس کے مطابق، علی بابا، Z.ai، مون شاٹ اور منی میکس (MiniMax) جیسے چینی ڈیولپرز نے امریکی ماڈلز کے مقابلے میں کم لاگت اور (Open Models) کے ذریعے واضح برتری حاصل کی ہے۔ ان کمپنیوں کے ماڈلز کم خرچ اور زیادہ کارکردگی کے سبب امریکی اسٹارٹ اپس اور سافٹ ویئر کمپنیوں میں تیزی سے مقبول ہو رہے ہیں۔اکتوبر میں ایئربی این بی (Airbnb) کے سی ای او برائن چیسکی نے انکشاف کیا کہ ان کی کمپنی نے اوپن اے آئی (OpenAI) کے چیٹ جی پی ٹی کی بجائے علی بابا کے Qwen ماڈل کا انتخاب کیا ہے کیونکہ وہ “تیز اور سستا” ہے۔ اسی طرح سوشل کیپیٹل کے سی ای او نے بھی بتایا کہ ان کی کمپنی نے اپنا زیادہ تر کام مون شاٹ کے Kimi K2 ماڈل پر منتقل کردیا ہے جو اوپن اے آئی اور انتھروپک کے ماڈلز سے “زیادہ موثر اور کم خرچ” ہے۔ٹیک ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ رجحان امریکی کوششوں کے لیے ایک چیلنج ہے جو چین کی ٹیکنالوجی صنعت کو روکنے کے لیے چِپ ایکسپورٹ پابندیاں عائد کر چکا ہے۔ تاہم ان پابندیوں کے باوجود چینی ماڈلز نے پرانے جنریشن کے چپس استعمال کرکے کم لاگت میں حیران کن ترقی حاصل کی ہے۔اعداد و شمار کے مطابق، چینی AI ٹولز نے حالیہ ہفتے میں دنیا کے 20 سب سے زیادہ استعمال ہونے والے ماڈلز میں 7 مقامات حاصل کیے، جن میں Z.ai کا GLM 4.6 اور DeepSeek کا V3.2 شامل ہیں۔ اوپن ماڈلز کے مجموعی ڈاؤن لوڈز کی تعداد 540 ملین سے تجاوز کر چکی ہے۔الیانس برنسٹین کی ایک رپورٹ کے مطابق، DeepSeek کے ماڈلز کی قیمتیں OpenAI کے مقابلے میں 40 گنا تک سستی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ چینی ماڈلز وہی حکمتِ عملی اپنا رہے ہیں جو چین نے ماضی میں سولر پینلز میں اختیار کی تھی۔ یعنی کم قیمت پر عالمی مارکیٹ پر قبضہ۔