امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعے کے روز اسرائیل کو حکم دیا کہ وہ فوری طور پر غزہ پر بمباری بند کرے، کیونکہ حماس نے ان کے پیش کردہ امن منصوبے کے چند نکات قبول کر لیے ہیں۔
یہ منصوبہ تقریباً دو سال سے جاری جنگ کے خاتمے اور سات اکتوبر 2023 کے حملے میں لیے گئے باقی تمام یرغمالیوں کی رہائی کے لیے ترتیب دیا گیا ہے۔ حماس کا کہنا ہے کہ وہ یرغمالیوں کی رہائی اور اقتدار دوسری فلسطینی جماعتوں کے حوالے کرنے پر آمادہ ہے، تاہم منصوبے کے کچھ نکات پر مزید مشاورت درکار ہے۔ حماس کے رہنماؤں نے اشارہ دیا کہ اب بھی کئی معاملات پر اختلافات موجود ہیں جن پر تفصیلی بات چیت ضروری ہے۔صدر ٹرمپ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اپنے بیان میں کہا کہ انہیں یقین ہے کہ حماس اب پائیدار امن کے لیے تیار ہے۔ ان کے مطابق اسرائیل کو فوری طور پر بمباری روکنی چاہیے تاکہ یرغمالیوں کو محفوظ طریقے سے نکالا جا سکے۔ صدر کے مطابق اس وقت خطے میں موجودہ حالات یرغمالیوں کی رہائی کے لیے انتہائی خطرناک ہیں۔ تاہم اسرائیل کی جانب سے فوری ردعمل سامنے نہیں آیا، کیونکہ اس وقت ملک میں یہودی مذہبی تعطیل کے باعث سرکاری دفاتر بند تھے۔ٹرمپ کا امن منصوبہ اسرائیل اور حماس کے درمیان مکمل جنگ بندی، یرغمالیوں کی رہائی، اسرائیلی افواج کے انخلا اور انسانی امداد کی بحالی پر مبنی ہے۔ منصوبے کے تحت غزہ کی تقریباً دو ملین آبادی کو بین الاقوامی نگرانی میں لایا جائے گا، جس کی نگرانی خود ٹرمپ اور سابق برطانوی وزیرِاعظم ٹونی بلیئر کریں گے۔ منصوبے میں مستقبل میں فلسطینی ریاست کے قیام یا مغربی کنارے کے ساتھ انضمام کی کوئی شق شامل نہیں کی گئی۔ اس منصوبے کو اسرائیل نے قبول کر لیا ہے جبکہ مصر، قطر اور فرانس سمیت کئی عالمی رہنماؤں نے بھی اس پیش رفت کو خوش آئند قرار دیا ہے۔ قطر کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان کے مطابق بات چیت جاری رکھی جائے گی تاکہ جنگ کے خاتمے کے لیے اتفاقِ رائے پیدا ہو سکے۔حماس کے سینئر رہنما موسیٰ ابو مرزوق نے الجزیرہ سے گفتگو میں کہا کہ ٹرمپ کا منصوبہ مذاکرات کے بغیر نافذ نہیں ہو سکتا۔ ان کے مطابق تمام یرغمالیوں کی رہائی 72 گھنٹوں میں ممکن نہیں کیونکہ کچھ کے بارے میں صرف باقیات دستیاب ہیں۔ ایک اور رہنما اسامہ حمدان نے کہا کہ غزہ پر کسی غیر ملکی انتظام کو قبول نہیں کیا جائے گا اور غیر ملکی افواج کی آمد ناقابلِ قبول ہے۔ حماس کے ترجمان کے مطابق منصوبے کے بعض حصے، خاص طور پر غزہ کے مستقبل اور فلسطینی حقوق سے متعلق امور، فلسطینی جماعتوں کے متفقہ فیصلے سے ہی طے کیے جانے چاہئیں۔غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق اسرائیلی حملوں میں اب تک 66 ہزار سے زائد فلسطینی جاں بحق ہو چکے ہیں جن میں نصف سے زیادہ خواتین اور بچے شامل ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق غزہ کی 90 فیصد آبادی بے گھر ہو چکی ہے اور متعدد علاقے مکمل طور پر غیر آباد ہو گئے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ترجمان کے مطابق ہزاروں بے گھر خاندان اب بھی اسپتالوں کے باہر کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور ہیں، کیونکہ ان کے پاس جنوبی علاقوں میں جانے کے وسائل نہیں۔سات اکتوبر 2023 کو حماس کے مسلح افراد نے اسرائیل میں داخل ہو کر فوجی اڈوں اور شہری علاقوں پر حملے کیے تھے، جن میں بارہ سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے جبکہ دو سو اکاون افراد کو یرغمال بنایا گیا تھا۔ اسرائیلی جوابی کارروائی میں غزہ کے بیشتر علاقے تباہ ہو گئے، شہر کے بنیادی ڈھانچے مٹ گئے اور لاکھوں افراد نے نقل مکانی کی۔ اب جب کہ اس حملے کی دوسری برسی قریب آ رہی ہے، ٹرمپ انتظامیہ امن منصوبے کے ذریعے جنگ کے خاتمے اور یرغمالیوں کی رہائی کو اپنی بڑی سفارتی کامیابی کے طور پر پیش کر رہی ہے۔صدر ٹرمپ نے خبردار کیا ہے کہ اگر حماس نے اتوار کی شام تک امن معاہدہ قبول نہ کیا تو ایسی شدید کارروائی کی جائے گی جس کی مثال پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی۔ ان کے مطابق مشرقِ وسطیٰ میں اب ہر صورت امن قائم ہو گا، چاہے کسی بھی قیمت پر۔