نیویارک: اسرائیلی وزیرِاعظم بنیامین نیتن یاہو نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کیا، تاہم ان کی تقریر کے آغاز سے قبل ہی متعدد ممالک کے مندوبین نے احتجاجاً ہال سے واک آؤٹ کیا۔
یہ اقدام ان عالمی رہنماؤں کے شدید ردِعمل کے بعد سامنے آیا جنہوں نے انہیں جنگی مجرم قرار دیا ہے۔اپنی تقریر میں نیتن یاہو نے کہا کہ "ہم ابھی ختم نہیں ہوئے، حماس کے باقی ماندہ عناصر غزہ شہر میں چھپے ہوئے ہیں، وہ اکتوبر 7 جیسے حملے دوبارہ کرنے کے خواہاں ہیں، اسی لیے اسرائیل کو یہ جنگ مکمل کرنا ضروری ہے۔” چند گھنٹے قبل ان کے دفتر نے اعلان کیا تھا کہ ان کی تقریر غزہ کی سرحد پر نصب لاؤڈ اسپیکرز کے ذریعے نشر کی جائے گی۔اقوام متحدہ میں اسرائیلی سفیر دانی ڈینن نے کہا کہ نیتن یاہو کی تقریر دنیا کو یہ واضح کرے گی کہ "اسرائیل اپنی سلامتی پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کرے گا۔” تاہم نیویارک میں ان کے خلاف احتجاج جاری رہا، اور غزہ میں قید اسرائیلی یرغمالیوں کے اہلخانہ نے اقوام متحدہ کے باہر مظاہرہ کیا۔نیتن یاہو کی آمد سے قبل بھی اسرائیل کی عالمی تنہائی نمایاں تھی۔ قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی نے اقوام متحدہ میں اسرائیل کو "باغی حکومت” قرار دیا، جبکہ سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا کہ "غزہ میں تباہی کی سطح میری مدت کے دوران کسی بھی تنازع سے زیادہ ہے”۔دوسری جانب، انٹرنیشنل کریمنل کورٹ نے نیتن یاہو کے خلاف گرفتاری کا وارنٹ جاری کر رکھا ہے، جس کے باعث ان کے طیارے نے نیویارک پہنچنے کے لیے طویل اور غیر معمولی راستہ اختیار کیا تاکہ ایسے ممالک کی فضائی حدود سے بچا جا سکے جو وارنٹ پر عمل کر سکتے ہیں۔دورۂ امریکا کے دوران نیتن یاہو صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے بھی ملاقات کریں گے۔ دونوں رہنماؤں کے درمیان مغربی کنارے کے الحاق اور فلسطینی ریاست کے حوالے سے اختلافات موجود ہیں۔ ٹرمپ نے جمعرات کو واضح کیا، "میں اسرائیل کو مغربی کنارے کا الحاق کرنے نہیں دوں گا، یہ نہیں ہونے والا۔یہ ملاقات ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب عالمی سطح پر فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت بڑھتی جا رہی ہے، اور اسرائیل پر جنگ کے خاتمے کے لیے دباؤ مسلسل بڑھ رہا ہے۔