اسلامی تعاون تنظیم کے افغانستان پر رابطہ گروپ کے افتتاحی اجلاس سے خطاب میں اسحاق ڈار نے کہا کہ ’پاکستان ایک پُرامن اور خوشحال افغانستان کے لیے ہر ممکن کوششوں کی حمایت کرنے کے لیے پرعزم ہے۔‘
نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر او آئی سی کانٹیکٹ گروپ برائے افغانستان کا پہلا اجلاس منعقد ہوا جس میں پاکستان کے ڈپٹی وزیراعظم و وزیر خارجہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے خطاب کیا۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان پانچ دہائیوں کی جنگ و خانہ جنگی کے بعد نسبتاً پرامن مرحلے میں داخل ہوا ہے، تاہم ملک کو اب بھی پابندیوں، معاشی بحران، بے روزگاری اور انسانی حقوق کے مسائل کا سامنا ہے۔انہوں نے زور دیا کہ او آئی سی کے رکن ممالک کو افغانستان کو تنہائی سے نکالنے اور عالمی برادری میں ضم کرنے کے لیے اقدامات کرنے چاہییں۔ اس موقع پر انہوں نے چھ نکاتی لائحہ عمل پیش کیا، جن میں افغانستان کے لیے غیرسیاسی بنیادوں پر انسانی امداد کی فراہمی، معیشت اور بینکنگ نظام کی بحالی،طالبان کے ساتھ مکالمے کو فروغ دینا، منشیات کے متبادل ذرائع آمدن میں تعاون، خواتین اور بچیوں پر عائد پابندیوں کے خاتمے کے لیے دباؤ ڈالنا اور افغان مہاجرین کی واپسی کے لیے موزوں حالات پیدا کرنے پر زور شامل تھا۔اسحاق ڈار نے خبردار کیا کہ افغانستان کی سرزمین پر سرگرم دہشت گرد گروہ خطے اور دنیا کے امن کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ رواں ماہ پاکستان کے بارڈر پر ٹی ٹی پی کے حملے میں 12 پاکستانی فوجی شہید ہوئے، جب کہ دہشت گرد گروہ سوشل میڈیا کو بھی پروپیگنڈے اور تشدد پر اکسانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ افغانستان کی عبوری حکومت کو اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ اس کی سرزمین پاکستان سمیت ہمسایہ ممالک کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہو۔انہوں نے اجلاس میں ایک ورکنگ گروپ کے قیام کی تجویز بھی دی جو افغانستان کے مسائل پر عملی روڈ میپ تیار کرے۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ پاکستان پرامن اور خوشحال افغانستان کے قیام کے لیے ہر ممکن تعاون جاری رکھے گا، تاہم اس کے لیے طالبان حکام کی جانب سے خلوص نیت اور سیاسی عزم لازمی ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان اور پاکستان کی تقدیریں جڑی ہوئی ہیں، اور پاکستان سب سے زیادہ یہ چاہتا ہے کہ افغانستان میں امن اور استحکام قائم ہو۔