
امریکا: تارکینِ وطن کی آبادی میں 2.2 ملین کی کمی؟ ماہرین نے سوالات اٹھا دیے
امریکی محکمۂ لیبر کے اعداد و شمار پر مبنی حالیہ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ جنوری سے جولائی 2025 کے درمیان ملک میں غیر ملکی تارکینِ وطن کی تعداد میں 22 لاکھ کی کمی واقع ہوئی ہے۔ تاہم ماہرین نے ان اعداد و شمار کو غیر حقیقی اور مشکوک قرار دیا ہے۔
یہ اعداد و شمار بیورو آف لیبر سٹیٹسٹکس (BLS) کی جانب سے جاری ہونے والے کرنٹ پاپولیشن سروے (CPS) پر مبنی ہیں، جسے مردم شماری بیورو ماہانہ بنیاد پر تیار کرتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق یہ کمی محض چھ ماہ میں سامنے آئی، جسے مختلف تھنک ٹینکس اور میڈیا اداروں نے بھی شائع کیا۔ لیکن ماہرین کے مطابق اتنی بڑی کمی ممکن نہیں۔دو تھنک ٹینکس نے اس دعوے کی تائید میں صرف اخباری رپورٹس اور انفرادی کیسز کا حوالہ دیا، جبکہ کوئی مضبوط ڈیٹا فراہم نہیں کیا گیا۔ مردم شماری بیورو نے بھی خبردار کیا ہے کہ CPS کا استعمال آبادی میں تبدیلی یا امیگریشن کی درست پیمائش کے لیے نہیں کیا جانا چاہیے۔دوسری جانب، ایک آزاد تحقیقی ٹیم نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ 2025 میں امریکہ میں امیگریشن کی حقیقی صورتحال 1 لاکھ 15 ہزار کے اضافے سے لے کر زیادہ سے زیادہ 5 لاکھ 25 ہزار کی کمی تک ہو سکتی ہے—جو کہ BLS کے دعوے سے کہیں مختلف ہے۔یقیناً، 2025 میں امیگریشن کی رفتار ماضی کے مقابلے میں کم ہوئی ہے۔ 2024 کے وسط میں سالانہ تقریباً 30 لاکھ کا اضافہ دیکھنے میں آیا تھا، لیکن اب یہ شرح کم ہو گئی ہے، جس کے اثرات بعض صنعتوں اور روزگار کی رفتار پر پڑے ہیں۔ تاہم، رپورٹ میں ظاہر کی گئی 22 لاکھ کی کمی ماہرین کے مطابق صرف اس وجہ سے ہو سکتی ہے کہ تارکینِ وطن اب حکومتی سرویز کا جواب دینے میں ہچکچاہٹ محسوس کر رہے ہیں—خصوصاً اس لیے کہ حکومت ٹیکس اور انشورنس ڈیٹا کو امیگریشن کے نفاذ کے لیے استعمال کر رہی ہے۔اگر یہ رپورٹ درست مان لی جائے تو اس کا مطلب ہوگا کہ امریکی لیبر مارکیٹ میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں آنی چاہئیں تھیں۔ مثلاً لاکھوں ملازمتوں کے اعداد و شمار دوبارہ ترتیب دینے پڑتے یا بے روزگاری کی شرح اچانک 2.6 فیصد پر آ جاتی، جو پچھلے 72 سال میں سب سے کم سطح ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ نتائج حقیقت سے بہت دور ہیں اور اعداد و شمار بالکل میل نہیں کھاتے۔