ٹرمپ انتظامیہ کا امیگریشن پالیسی میں نیا سخت اقدام
امریکی صدر ٹرمپ انتظامیہ نے امیگریشن پالیسی میں بڑی تبدیلی کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ امریکا میں قیام یا مراعات کے خواہش مند تارکینِ وطن کے معاملات میں اب اُن کے خیالات اور سرگرمیوں کو بھی پرکھا جائے گا۔
یو ایس سٹیزن شپ اینڈ امیگریشن سروسز (USCIS) کے مطابق، اگر کوئی شخص امریکا مخالف یا دہشت گرد تنظیم کی حمایت کرے یا یہود دشمن نظریات کو فروغ دے، تو اس کی ویزا تجدید، امیگریشن اسٹیٹس یا دیگر فوائد منسوخ کیے جا سکتے ہیں۔امیگریشن وکلاء نے اس اقدام کو آزادیٔ اظہار پر قدغن قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ قانون میں "یہود دشمنی” یا "امریکا مخالف رویے” کی کوئی واضح تعریف موجود نہیں، جس سے امیگریشن حکام کو وسیع اختیارات حاصل ہو جائیں گے۔ ماہرین کے مطابق معمولی بیانات، تحریریں یا حتیٰ کہ کوئی مخصوص لباس، جیسے کفایہ پہننا بھی، "یہود دشمنی” کے زمرے میں شامل کیا جا سکتا ہے۔وکلاء نے نشاندہی کی ہے کہ پالیسی دستاویز میں 29 بار "صوابدید” کا لفظ استعمال ہوا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فیصلے زیادہ تر امیگریشن افسر کے ذاتی رویے اور ترجیحات پر منحصر ہوں گے۔ اس اقدام کو 1950 کی دہائی کے مکارتھی ازم سے تشبیہ دی جا رہی ہے، جب امریکا میں کمیونزم کے حامی افراد کو سخت جانچ پڑتال اور دباؤ کا سامنا کرنا پڑا تھا۔انسانی حقوق کے نمائندوں نے خبردار کیا ہے کہ اس پالیسی سے تارکینِ وطن میں خوف و ہراس بڑھے گا اور وہ معمولاتِ زندگی میں بھی احتیاط برتنے پر مجبور ہو جائیں گے، جس سے امریکی معاشرے میں ان کے انضمام پر مزید دباؤ پڑ سکتا ہے۔