امریکی سپریم کورٹ نے ٹیکساس کو 2026 کے وسط مدتی انتخابات میں نیا انتخابی نقشہ استعمال کرنے کی اجازت دے دی ہے، جو ریاست میں حالیہ حلقہ بندیوں کے تنازع کے بعد ایک بڑا عدالتی فیصلہ قرار دیا جا رہا ہے۔
چھ رکنی قدامت پسند اکثریت نے فیصلہ دیا، جبکہ تین لبرل ججوں نے اختلاف کیا۔یہ حکم اُس نچلی عدالت کے فیصلے کو معطل کرتا ہے جس نے کہا تھا کہ ٹیکساس نے نئی حلقہ بندیوں کے ذریعے سیاہ فام اور لاطینی ووٹرز کی سیاسی طاقت جان بوجھ کر کم کی، جسے نسلی جیری مینڈرنگ قرار دیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ ریاست اپنے مؤقف میں کامیاب ہونے کے “قابلِ لحاظ امکانات” رکھتی ہے اور انتخابات کے قریب نقشہ تبدیل کرنا ’’ناقابلِ تلافی نقصان‘‘ کا باعث بن سکتا ہے۔نئے نقشے نے ملک بھر میں حلقہ بندیوں کے سیاسی اثرات پر بحث کو تیز کر دیا ہے۔ رپورٹس کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت سے تیار کردہ یہ نقشہ ریپبلکن پارٹی کو ایوانِ نمائندگان میں اضافی نشستیں دلانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ٹیکساس کے پاس اس وقت 38 نشستیں ہیں، جن پر ریپبلکن پہلے ہی نمایاں سبقت رکھتے ہیں۔ڈیموکریٹس نے فیصلے کو نسل پر مبنی سیاسی تقسیم کو قانونی تحفظ دینے کے مترادف قرار دیا ہے، جبکہ گورنر گریگ ایبٹ نے اسے اپنی ’’قانونی کامیابی‘‘ قرار دیا ہے۔ اختلافی نوٹ میں جسٹس ایلینا کیگن نے کہا کہ نچلی عدالت نے نو روزہ سماعت، ہزاروں شواہد اور ہزاروں صفحات کے ریکارڈ کا تفصیل سے جائزہ لیا، جبکہ سپریم کورٹ نے محدود مواد پر انحصار کرتے ہوئے فیصلہ دیا۔ مختلف تنظیمیں اس نقشے کو آئینی بنیادوں پر چیلنج کرنے کے لیے اگلے مراحل کی تیاری کر رہی ہیں۔