امریکہ نے H-1B ویزوں کے لیے مزید سختیاں بڑھادی ہیں، حکام کے مطابق تمام درخواست گزار اور ان کے اہلِ خانہ اپنے تمام سوشل میڈیا پروفائلز کو عوام کیلئے کھلا رکھیں، تاکہ اس بات کا اندازہ ہو سکے کہ وہ امریکی مفادات کو نقصان پہنچانے کا ارادہ تو نہیں رکھتے۔
اس پالیسی کے تحت طالب علموں کے بعد اب ہنرمند غیر ملکی ورکرز بھی اسی لازمی شرط کے پابند ہوں گے۔اس جائزے میں ایک بڑی تبدیلی یہ ہے کہ محکمۂ خارجہ درخواست گزاروں کی ماضی کی ملازمتوں میں ’’معلومات کی غلطی، گمراہ کن مواد، مواد کی نگرانی، فیکٹ چیکنگ، کمپلائنس اور آن لائن سیفٹی‘‘ جیسے شعبوں میں کام کی باریکی سے جانچ کرے گا۔ ایک داخلی سرکاری ہدایت نامے کے مطابق اگر ایسے افراد نے کسی ایسی کمپنی میں کام کیا ہے جو ’’امریکہ میں محفوظ اظہارِ رائے کو دبانے‘‘ میں شامل رہی ہو، تو ان کی درخواست مسترد کی جا سکتی ہے۔ یہ اصول ویزہ کی تجدید اور اہلِ خانہ کے کیسز پر بھی لاگو ہوگا۔H-1B ویزہ وہ درجہ ہے جس کے ذریعے امریکی کمپنیاں طب، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ، فائنانس اور تحقیق جیسے شعبوں کے ماہر غیر ملکی افراد کو ملازمت دیتی ہیں۔ بظاہر اگرچہ یہ عارضی ویزہ ہوتا ہے، لیکن اکثر اسی کے ذریعے مستقل امیگریشن کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ نئی پالیسی سابقہ امریکی حکمتِ عملی سے ہٹ کر ہے، کیونکہ کبھی یہی ادارے بیرونِ ملک پروجیکٹس میں فیکٹ چیکنگ اور غلط معلومات کے خلاف مہمات کی مالی معاونت کرتے تھے۔صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دوبارہ صدارت سنبھالنے کے بعد ’’آزاد اظہار‘‘ کے نام پر ایسی تمام کوششوں کی مخالفت کی ہے جنہیں وہ سیاسی سینسرشپ سمجھتے ہیں۔ ان کے مطابق سوشل میڈیا پر قدامت پسند آوازوں کو دبایا جاتا رہا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ نئی پالیسی میں اظہارِ رائے کو دبانے والے بین الاقوامی کرداروں کو بھی امریکہ میں داخلے سے روکنے کی دھمکی شامل ہے۔ نئے قواعد کے نتائج خاص طور پر ان امیدواروں کے لیے نمایاں ہوں گے جن کا پیشہ معلوماتی مواد کے نظم و نسق یا غلط معلومات کے خلاف کام سے جڑا رہا ہے، کیونکہ اب یہی تجربہ ویزہ مسترد ہونے کی بڑی وجہ بن سکتا ہے۔