نیویارک سٹی کے میئر ایرک ایڈمز نے دو اہم ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط کیے جن کا مقصد شہر کی مالیاتی پالیسیوں کو سیاسی دباؤ سے بچانا اور عبادت گاہوں میں مذہبی آزادی کو ہراسانی کے بغیر یقینی بنانا ہے۔
ایگزیکٹو آرڈر 60 کے تحت میئر کے مقرر کردہ افسران، کنٹریکٹنگ آفیسرز اور وہ تمام حکام جنہیں خریداری یا کنٹریکٹ پر اختیار حاصل ہے، اسرائیل یا اسرائیلی شہریوں کے خلاف کسی بھی قسم کے بائیکاٹ، عدم سرمایہ کاری یا امتیازی فیصلے نہیں کریں گے۔ آرڈر یہ بھی واضح کرتا ہے کہ سٹی کی پنشن سرمایہ کاری صرف مالی مفاد کی بنیاد پر کی جائے گی، نہ کہ کسی سیاسی یا نسلی بنیاد پر۔شہر کے پانچ خود مختار پنشن سسٹمز تقریباً 300 ارب ڈالر عالمی مارکیٹ میں سرمایہ کاری کے طور پر رکھتے ہیں جن میں 300 ملین ڈالر سے زائد اسرائیلی بانڈز اور اثاثہ جات شامل ہیں۔ میئر ایڈمز نے کہا کہ نیویارک اور اسرائیل کے درمیان گہرے مالی، معاشی اور سماجی تعلقات ہیں، اور شہر کو ایسی پالیسیوں کی ضرورت ہے جو یہ یقینی بنائیں کہ کسی قوم یا کمیونٹی کے خلاف تعصب پر مبنی فیصلے نہ کیے جائیں۔ انہوں نے زور دیا کہ شہر میں بڑھتے یہود مخالف واقعات کے تناظر میں ایسی پالیسیاں ضروری ہیں جو امتیازی رویوں کو حکومتی سطح پر جڑ پکڑنے سے روکیں۔ایگزیکٹو آرڈر 61 کے تحت این وائی پی ڈی کمشنر کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ پیٹرول گائیڈ میں تبدیلیوں کا جائزہ لیں، تاکہ عبادت گاہوں کے قریب ہونے والے احتجاجات کو ضابطے میں لایا جا سکے۔ ان تجاویز میں ایسی مخصوص حدود شامل ہو سکتی ہیں جہاں عبادت گاہ کے داخلی دروازے سے ایک مقررہ فاصلے تک احتجاج محدود یا ممنوع ہو۔ مقصد یہ ہے کہ عبادت کے وقت عبادت گزاروں کو ہراسانی، خلل یا کسی ممکنہ خطرے سے محفوظ رکھا جائے، جبکہ پرامن احتجاج اور آزادیٔ اظہار کے آئینی حقوق کو برقرار رکھا جائے۔