امریکن الائنس آف میوزیمز کی رپورٹ کے مطابق، ڈونلڈ ٹرمپ کے عہدِ صدارت کے بعد سے امریکہ کے ایک تہائی میوزیمز سرکاری گرانٹس یا معاہدوں سے محروم ہوگئے ہیں۔
"امریکن الائنس آف میوزیمز” کی جانب سے جاری اس سروے میں ملک بھر کے 500 سے زائد میوزیم ڈائریکٹرز کی رائے شامل کی گئی۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ جن میوزیمز کو فنڈنگ منسوخی یا غیر ادا شدہ اخراجات کا سامنا ہوا، ان میں اوسط نقصان تقریباً 30 ہزار ڈالر رہا۔ سب سے زیادہ منسوخ شدہ گرانٹس "انسٹی ٹیوٹ آف میوزیم اینڈ لائبریری سروسز”، "نیشنل انڈاؤمنٹ فار دی ہیومینیٹیز” اور "نیشنل انڈاؤمنٹ آف دی آرٹس” سے تھیں۔ دو تہائی اداروں نے بتایا کہ یہ فنڈنگ کسی دوسرے ذریعہ سے پوری نہیں ہوسکی۔امریکن الائنس آف میوزیمز کی سی ای او میرلن جیکسن نے کہا کہ “حاضری اور مالی کارکردگی وبا کے بعد پہلی بار نیچے جا رہی ہے، یہ پالیسی سازوں اور مخیر حضرات کے لیے ایک وارننگ ہے۔” رپورٹ کے مطابق تقریباً ایک چوتھائی میوزیمز نے فنڈنگ ختم ہونے کے باعث طلبہ، معذور افراد اور بزرگوں کے لیے پروگرام منسوخ یا کم کردیے، جبکہ 28 فیصد اداروں نے عام عوام کے لیے سرگرمیاں ختم کیں۔ٹرمپ انتظامیہ نے اپنے دوسرے دور میں ثقافتی اداروں پر دباؤ بڑھایا ہے۔ فروری میں ٹرمپ نے کینیڈی سینٹر کے بورڈ چیئرمین کو برطرف کرکے خود کنٹرول سنبھالا، جس کے بعد ٹکٹ فروخت میں نمایاں کمی آئی۔ مارچ میں انہوں نے ایک صدارتی حکم نامہ جاری کیا جس کے تحت "سمتھ سونین” کے میوزیمز سے “غیر امریکی یا متنازعہ مواد” ہٹانے کا حکم دیا گیا، خاص طور پر نیشنل میوزیم آف افریقی امریکن کلچر کو نشانہ بنایا گیا۔