
یروشلم: اسرائیلی حکومت نے حماس کے قبضے میں موجود یرغمالیوں کی رہائی کے لیے معاہدے کی منظوری دے دی ہے۔
وزیرِ اعظم بینجمن نیتن یاہو کے دفتر کے مطابق کابینہ نے جمعے کی صبح اس منصوبے پر اتفاق کیا جو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی سے طے پایا۔ اس معاہدے کے تحت مرحلہ وار جنگ بندی اور فلسطینی قیدیوں کے بدلے اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کا عمل شروع ہوگا۔اس فیصلے کے ساتھ ہی دو سال سے جاری اسرائیل-حماس جنگ میں جنگ بندی کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کے زیرِ تجویز جامع امن منصوبے کے مطابق حماس کے غیر مسلح ہونے، غزہ کی آئندہ حکمرانی اور تعمیرِ نو کے لیے ایک بین الاقوامی فورس کی تعیناتی جیسے معاملات پر اب بھی کئی سوالات باقی ہیں، تاہم فریقین اب جنگ کے خاتمے کے قریب دکھائی دے رہے ہیں جس میں اب تک لگ بھگ 67 ہزار فلسطینی جاں بحق اور تقریباً 1,200 اسرائیلی ہلاک ہو چکے ہیں۔معاہدے کے ابتدائی مرحلے میں حماس تمام زندہ یرغمالیوں کو چند دنوں میں رہا کرے گی، جبکہ اسرائیل اپنی افواج کو غزہ کے بیشتر حصوں سے واپس بلانا شروع کرے گا۔ اطلاعات کے مطابق تقریباً 2,000 فلسطینی قیدیوں کو بھی رہا کیا جائے گا اور مصر کے ساتھ سرحدی گزرگاہیں کھولی جائیں گی تاکہ انسانی امداد غزہ میں داخل ہوسکے۔حماس کے مذاکرات کار خلیل الحیہ نے اعلان کیا کہ ’’ہم نے اپنے عوام کے خلاف جنگ اور جارحیت کے خاتمے پر اتفاق کر لیا ہے۔‘‘ دوسری جانب تل ابیب میں یرغمالیوں کے اہلِ خانہ نے معاہدے کی خبر سن کر خوشی کا اظہار کیا۔ امریکی صدر ٹرمپ نے بھی کہا کہ ’’تمام یرغمالی پیر کے روز گھر واپس آئیں گے‘‘ اور جلد علاقے کا دورہ کریں گے۔امریکی منصوبے کے مطابق غزہ کے اندر ایک محدود اسرائیلی فوجی موجودگی برقرار رہے گی، جبکہ عرب اور مسلم ممالک پر مشتمل ایک بین الاقوامی فورس سیکیورٹی کی ذمہ داری سنبھالے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکہ ایک بڑے تعمیرِ نو پروگرام کی قیادت کرے گا۔ معاہدے پر دستخط مصر میں متوقع ہیں۔