ٹرمپ انتظامیہ نے امیگریشن عدالتوں میں بڑھتے ہوئے کیسز کو نمٹانے کے لیے ایک متنازع اقدام اٹھایا ہے۔ درجنوں امیگریشن ججز کو برطرف کرنے کے بعد حکومت نے آرمی ریزرو اور نیشنل گارڈ کے وکلا کو عارضی امیگریشن ججز کے طور پر تعینات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
امریکی محکمہ دفاع کے مطابق پہلے گروپ کی تربیت پیر سے شروع ہو رہی ہے، جب کہ دوسرا گروپ آئندہ بہار میں ٹریننگ حاصل کرے گا۔ تقریباً 100 فوجی وکلا کو شامل کیا جا رہا ہے جن میں سے 50 کو چھ ماہ کے لیے ڈیوٹی پر بھیجا جائے گا۔انتظامیہ کا مقصد 600 فوجی وکلا کو شامل کر کے امیگریشن عدالتوں میں تعینات کرنا ہے تاکہ یہ فیصلہ کر سکیں کہ کن تارکینِ وطن کو ملک میں رہنے کی اجازت دی جائے۔ تاہم ماہرین اور انسانی حقوق کے علمبردار اس اقدام پر شدید تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق امیگریشن قانون نہایت پیچیدہ ہے، اور بغیر مناسب تجربے کے فوجی وکلا کی تقرری انصاف کے عمل کو متاثر کر سکتی ہے۔امیگریشن عدالتوں میں زیرِ التوا کیسز کی تعداد گزشتہ چار سال میں دوگنی ہو کر 34 لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے 170 ارب ڈالر کے اضافی بجٹ کے ذریعے امیگریشن نافذ کرنے والے عملے میں 10 ہزار اہلکاروں کی بھرتی کا اعلان کیا ہے، تاہم مستقل امیگریشن ججز کی زیادہ سے زیادہ تعداد 800 تک محدود رکھی گئی ہے۔قانونی ماہرین کے مطابق یہ منصوبہ فوجی نظامِ انصاف کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔ ڈیموکریٹ سینیٹرز نے اس اقدام کو (Posse Comitatus Act) کی خلاف ورزی قرار دیا ہے، جو فوجی اہلکاروں کو اندرونِ ملک قانون نافذ کرنے کے کاموں سے روکتا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ غیر تربیت یافتہ ججز کی تعیناتی مزید اپیلوں، تاخیر اور عدالتی دباؤ میں اضافے کا باعث بنے گی۔