امریکا میں وفاقی حکومت کا شٹ ڈاؤن نافذ ہوگیا، جب ڈیموکریٹس اور ریپبلکنز کے درمیان صحت کی سبسڈیز کے معاملے پر اتفاق رائے نہ ہو سکا۔
امریکا میں شٹ ڈاؤن سے فضائی سفر متاثر اور سائنسی تحقیق معطل ہوگئی، اہم محکمے بند ہونے سے امریکی فوجیوں کو تنخواہوں کی ادائیگی بھی رک گئی، 7 لاکھ 50 ہزار وفاقی ملازمین کو تنخواہ کے بغیر جبری رخصت پر بھیج دیا گیا، جب کہ امریکی محکموں کے شٹ ڈاؤن ہونے سے روزانہ تقریباً 40 کروڑ ڈالر کا نقصان ہوگا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے انتباہ دیا ہے کہ اگر بحران طویل ہوا تو صرف عارضی تعطیلات نہیں بلکہ مستقل برطرفیاں بھی کی جائیں گی۔ جبکہ کئی سرکاری دفاتر مکمل طور پر بند ہونے کے خطرے میں ہیں۔ وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے عندیہ دیا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ اس موقع کو وفاقی اداروں کے حجم میں کمی کے لیے استعمال کرے گی، جس کے نتیجے میں تعلیم، ماحولیات اور سماجی خدمات جیسے شعبے بری طرح متاثر ہوں گے۔نائب صدر جے ڈی وینس نے ایک بریفنگ میں کہا کہ “اگر یہ صورتحال طویل ہوئی تو برطرفیاں ناگزیر ہوں گی۔” دریں اثنا، سینیٹ میں ریپبلکنز کی پیش کردہ فنڈنگ بل، جس میں صحت کی سبسڈیز شامل نہیں تھیں، ڈیموکریٹس نے مسترد کر دی۔ تاہم پارٹی کے اندر اختلافات بھی سامنے آئے ہیں کیونکہ کچھ اراکین چاہتے ہیں کہ حکومت فوری طور پر دوبارہ فعال ہو۔ہاؤس اسپیکر مائیک جانسن نے ڈیموکریٹس سے اپیل کی کہ وہ “حقیقت کا سامنا کریں اور اپنی ضد چھوڑیں”، جبکہ ڈیموکریٹ رہنما ہکیم جیفریز اور سینیٹر چک شومر نے صدر ٹرمپ کے رویے کو “غیر سنجیدہ اور غیر ذمہ دارانہ” قرار دیا۔ ان کے مطابق صدر نے مذاکرات کے بجائے سیاسی طنز پر مبنی جعلی ویڈیوز شیئر کر کے بحران کو مزید بڑھایا۔ٹرمپ انتظامیہ کے بجٹ ڈائریکٹر رس واؤٹ نے ایجنسیوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ عارضی چھٹیوں کے بجائے ملازمتوں میں کٹوتی کی تیاری کریں۔ اس فیصلے سے وفاقی نظام میں مستقل تبدیلیوں کا امکان بڑھ گیا ہے۔معاشی ماہرین کے مطابق اگر شٹ ڈاؤن چند ہفتوں تک برقرار رہا تو روزگار، مالیاتی منڈیوں اور عوامی خدمات پر نمایاں منفی اثرات پڑ سکتے ہیں۔ ابتدائی دنوں میں وال اسٹریٹ میں معمولی اتار چڑھاؤ دیکھا گیا، مگر ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ طویل بندش سے معاشی جھٹکا ناگزیر ہے۔ادھر میڈیکیئر اور میڈیکیڈ جیسے بنیادی صحت کے پروگرام جاری رہیں گے، مگر عملے کی کمی کے باعث خدمات میں تاخیر متوقع ہے۔ محکمہ دفاع اور ہوم لینڈ سیکیورٹی کے زیادہ تر ملازمین اپنے فرائض انجام دیتے رہیں گے، تاہم قومی پارکس اور عجائب گھروں سمیت عوامی مقامات بند ہونا شروع ہو گئے ہیں۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ ٹرمپ کے صدارت کے تمام ادوار کا تیسرا شٹ ڈاؤن ہے اور اس بار دونوں جماعتوں کے درمیان تلخی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ بحران کے جلد ختم ہونے کے امکانات کم دکھائی دے رہے ہیں