ٹرمپ انتظامیہ کے دوران تارکین وطن کی قید تنہائی میں نمایاں اضافہ
فزیشنز فار ہیومن رائٹس اور ہارورڈ یونیورسٹی کے محققین کی تیار کردہ رپورٹ کے مطابق، امریکی امیگریشن اور کسٹمز انفورسمنٹ (ICE) نے ٹرمپ انتظامیہ کے دوران ہزاروں تارکین وطن کو قید تنہائی (Solitary Confinement) میں رکھا ہے، جسے اقوام متحدہ مسلسل 15 دن سے زیادہ جاری رہنے کی صورت میں تشدد قرار دیتا ہے۔
اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اپریل 2024 سے مئی 2025 تک کم از کم 10,588 افراد کو انفرادی قید میں رکھا گیا۔ اعداد و شمار سے ظاہر ہوا کہ ٹرمپ کے اقتدار کے پہلے چار مہینوں میں ہر ماہ قید میں ڈالے جانے والے افراد کی شرح 2018 سے 2023 کے مقابلے میں دوگنی رہی اور 2024 کے آخری مہینوں کے مقابلے میں چھ گنا زیادہ رہی۔رپورٹ کے مطابق، خاص طور پر کمزور قیدیوں — جن میں معذور، بیمار، حاملہ خواتین، بزرگ افراد، یا جنہیں جنسی تشدد کا خطرہ ہو — کو اوسطاً 38 دن تک قید تنہائی میں رکھا گیا، جو 2021 میں صرف 14 دن تھا۔ محققین کا کہنا ہے کہ یہ عمل نہ صرف انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے بلکہ غیر ضروری اور انتقامی بنیادوں پر بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔کئی حراستی مراکز میں قید تنہائی کے کیسز نمایاں طور پر زیادہ رپورٹ ہوئے، جن میں کیلیفورنیا کے ایڈیلانٹو اور اوٹائے میسا سینٹر، ٹیکساس، پنسلوانیا، نیویارک اور ایریزونا کی سہولیات شامل ہیں۔ رپورٹ میں انتباہ کیا گیا کہ حالیہ مہینوں میں کانگریس کی جانب سے اربوں ڈالر کی فنڈنگ سے حراستی نظام کو مزید وسعت دینے کے باعث یہ مسئلہ مزید بڑھ سکتا ہے۔