امریکا: اسپتالوں میں ICE چھاپوں کے دوران تحفظ کی ہدایات
فزیشنز فار ہیومن رائٹس اور نیشنل امیگریشن لا سینٹر نے گائیڈ جاری کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ اگر امیگریشن اینڈ کسٹمز انفورسمنٹ (ICE) کا عملہ کسی صحت مرکز پر آئے تو طبی عملہ کیسے قانونی اور اخلاقی طور پر مریضوں کے حقوق کا تحفظ کر سکتا ہے
امریکا میں ٹرمپ انتظامیہ کی سخت امیگریشن پالیسیوں کے باعث صحت کی سہولتوں پر بھی اثرات مرتب ہو رہے ہیں، تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ ہسپتال اور طبی عملہ ایسے اقدامات کر سکتے ہیں جو مریضوں، خاص طور پر غیر قانونی تارکین وطن، کی پرائیویسی اور علاج تک رسائی کو یقینی بنائیں۔فزیشنز فار ہیومن رائٹس اور نیشنل امیگریشن لا سینٹر نے گائیڈ جاری کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ اگر امیگریشن اینڈ کسٹمز انفورسمنٹ (ICE) کا عملہ کسی صحت مرکز پر آئے تو طبی عملہ کیسے قانونی اور اخلاقی طور پر مریضوں کے حقوق کا تحفظ کر سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق مریضوں کو ان کے بنیادی آئینی حقوق سے آگاہ کرنا ضروری ہے، مثلاً خاموش رہنے کا حق، وکیل کی موجودگی کا حق اور غیر ضروری سوالات یا کاغذات نہ دینے کا اختیار۔رہنمائی کے مطابق، ہسپتالوں کو واضح پالیسی بنانی چاہیے کہ کون سے حصے عوام کے لیے کھلے ہیں اور کون سے صرف مریضوں اور عملے کے لیے مخصوص ہیں۔ ICE اہلکار بغیر عدالتی وارنٹ کے نجی حصوں میں داخل نہیں ہو سکتے۔ اسی طرح طبی مراکز کو اپنے عملے کو تربیت دینی چاہیے کہ صرف نامزد نمائندہ ہی قانون نافذ کرنے والے اداروں سے بات کرے اور وارنٹ کی قانونی حیثیت کو پرکھے۔ماہرین نے اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ مریضوں کے ریکارڈ اور امیگریشن اسٹیٹس کو صرف ضرورت پڑنے پر ہی درج کیا جائے، جبکہ ٹیلی میڈیسن اور متبادل ادائیگی کے طریقے ایسے مریضوں کے لیے مددگار ہو سکتے ہیں جو ICE کی نگرانی کے خوف سے ہسپتال آنے سے کتراتے ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ طبی عملے کی آواز قانون سازوں تک پہنچانا بھی اہم ہے تاکہ وہ پالیسیوں پر نظرثانی کریں اور مریضوں کے بنیادی حقوق کو محفوظ بنایا جا سکے۔ ساتھ ہی، ہسپتالوں کو چاہیے کہ وہ مریضوں کو باقاعدگی سے آگاہی فراہم کریں تاکہ وہ اعتماد کے ساتھ علاج حاصل کر سکیں۔