امریکا: تارکین وطن بچوں کے تعلیمی حقوق کو ایک بار پھر خطرہ
امریکا میں تارکین وطن بچوں کے تعلیمی حقوق ایک بار پھر خطرے میں پڑ گئے ہیں۔ماہرین تعلیم کے مطابق نئی پالیسیاں بچوں کی ذہنی صحت، اعتماد اور تعلیمی کارکردگی پر گہرے اثرات ڈال رہی ہیں۔
اگرچہ سپریم کورٹ نے 1982 میں فیصلہ دیا تھا کہ ہر بچے کو، چاہے اس کا امیگریشن اسٹیٹس کچھ بھی ہو، سرکاری اسکول میں تعلیم حاصل کرنے کا حق ہے، لیکن نئی سخت پالیسیوں نے یہ حق غیر یقینی بنا دیا ہے۔رپورٹ کے مطابق، ٹرمپ انتظامیہ کی امیگریشن کارروائیوں اور ریاستی سطح پر پیش کیے جانے والے نئے قوانین نے اسکولوں کے ماحول میں خوف اور دباؤ بڑھا دیا ہے۔ اساتذہ اور والدین کا کہنا ہے کہ طلبہ اپنی پڑھائی پر توجہ نہیں دے پا رہے اور کئی خاندان چھاپوں اور نگرانی کے خوف سے بچوں کو اسکول بھیجنے سے ہچکچا رہے ہیں۔اعداد و شمار کے مطابق، امریکی اسکولوں میں زیادہ تر غیر ملکی طلبہ ہسپانوی نژاد ہیں، جبکہ ایشیائی طلبہ بھی بڑی تعداد میں شامل ہیں۔ تازہ تحقیق کے مطابق، کم از کم نو ریاستوں، جن میں جارجیا، اوہائیو، اوکلاہوما اور ٹیکساس شامل ہیں، نے ایسے بل تجویز کیے ہیں جو غیر دستاویزی بچوں کے اندراج کو محدود یا اسکولوں کو سزا دینے جیسے اقدامات پر مبنی ہیں۔ماہرین تعلیم نے خبردار کیا ہے کہ یہ پالیسیاں بچوں کی ذہنی صحت، اعتماد اور تعلیمی کارکردگی پر گہرے اثرات ڈال رہی ہیں۔ اساتذہ اور سماجی تنظیمیں اسکولوں کو محفوظ پناہ گاہ بنانے کے لیے کوشش کر رہی ہیں، تاکہ طلبہ خوف کے بجائے تعلیم اور ترقی پر توجہ دے سکیں۔